سینٹ :بجٹ کیلئے 156 سفارشات منظور ، قومی اسمبلی بھجوادیں

May 10, 2018

اسلام آباد (وقائع نگار+ جنرل رپورٹر+ وقائع نگار+ سٹی رپورٹر) سینٹ کے اجلاس میں بدھ کو شیری رحمن، شبلی فراز اور دیگر ارکان نے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور صورتحال پر توجہ دلائو نوٹس دیا۔ شیری رحمان نے کہا کہ ملک میں جو صورتحال ہے اس پر افسوس ہے۔ اچھا ہے کہ وزیر مملکت برائے توانائی ایوان میں موجود ہیں۔ حکومت دعوے کرتی ہے کہ سسٹم میں اتنی بجلی داخل کر دی، اتنے مہینوں میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی حالانکہ پورے پاکستان میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن یہ ایسی بحران ایسی صورتحال اختیار کر سکتا ہے جو پہلے کبھی نہیں تھی۔ رمضان تک کیا یہ مسئلہ حل ہو سکے گا؟ نہیں۔ وزیر مملکت برائے توانائی عابد شیر علی نے کہا کہ ہم نے قوم سے جو وعدہ کیا تھا اس میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران سحری اور افطار کے اوقات میں زیادہ نقصانات والے علاقوں میں بھی لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائیگی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں فیکٹریوں میں 20، 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ لیکن موجودہ حکومت نے دن رات کام کر کے صورتحال کو بہتر بنایا ہے۔ بجلی کے شعبہ میں رینٹل پاور جیسا کوئی سکینڈل اس حکومت کے دور میں سامنے نہیں آیا۔ دو عشروں سے ٹرانسمیشن لائنوں کے لئے بھی کوئی کام، کوئی پن بجلی کا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا تھا لیکن ہم نے پاور پالیسی میں تبدیلی کی۔کرپشن کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں ساڑھے 13 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوئی ہے۔ 3500 میگاواٹ مزید بجلی بھی آئے گی۔ ہم نے پانچ ماہ میں 220 کے وی کے پانچ نئے گرڈ سٹیشن بنائے ہیں۔ آج پیداوار 19300 میگاواٹ ہے جو طلب کے برابر ہے۔ 98 فیصد علاقوں میں موبائل میٹر ریڈنگ ہو رہی ہے۔ ہم نے کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی سے 150 ارب روپے ٹیوب ویلوں کی مد میں وصول کرنے ہیں، اس کے علاوہ آزاد کشمیر اور فاٹا سے بھی 70، 70 ارب روپے لینے ہیں لیکن ہم اکائیوں کی بجلی بند نہیں کر سکتے۔ بجلی چوروں کو سزا دینے کیلئے سیاسی جماعتیں تعاون کریں۔ انہیں سیاسی تحفظ نہ دیں۔ اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کے حکومتی اداروں اور وزارتوں کی طرف منتقلی پر سینیٹر رضا ربانی کے توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا ہے کہ 2005ء سے 2012ء کے دوران ای او بی آئی کے فنڈز آٹھ اقساط میں بیت المال، موسمیاتی تبدیلی اور دیگر وزارتوں اور محکموں کو منتقل کئے گئے ہیں۔ کل ایک ارب 27 کروڑ 10 لاکھ روپے مختلف اداروں کو ای او بی آئی سے منتقل ہوئے تھے۔ ای او بی آئی کا فنڈ غریب مزدوروں کی پنشن کیلئے ہوتا ہے۔ ہم نے 90 فیصد رقم وصول کر کے ای او بی آئی کے اکائونٹ میں واپس جمع کرا دی ہے۔ 2 کروڑ 19 لاکھ پچاس ہزار روپے باقی رہ گئے ہیں، اس پر بھی کام ہو رہا ہے۔ 1996ء میں ای او بی آئی کے قانون میں تبدیلی کی گئی تھی۔ ماضی میں ای او بی آئی کے 43 ارب روپے سے غیر قانونی طور پر جائیدادیں خریدی گئیں اس میں سے علیم خان کیخلاف 10 ارب روپے کا ایک کیس ہائی کورٹ میں چل رہا ہے، اس ادارے کو کنگال کر دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ غریب مزدوروں کی پنشن 600 روپے ہی ہے اور اسے بڑھایا نہیں جا پا رہا۔ 18 ویں ترمیم کے تحت ای او بی آئی صوبوں کو منتقل کر دیا گیا تھا لیکن صوبے اسے لینے کیلئے تیار نہیں ہیں اور ان کا موقف ہے کہ پہلے اربوں روپے کی لوٹی گئی رقم واپس حاصل کی جائے پھر اسے ہم لیں گے۔ سینٹ نے بجٹ اور فنانس بل 2018ء کے لئے 156 سفارشات کی متفقہ منظوری دے دی ہے سینیٹ کی سفارشات قومی اسمبلی کو بھجوا دی گئیں۔ سینیٹ نے سفارش کی ہے دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم سے متاثرہ لوگوں کو زمینوں کی ادائیگی کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں صوبوں کے لئے پی ایس ڈی پی میں رکھی جانے والی رقوم کی تفصیلات بجٹ کو حتمی شکل دیئے جانے سے کم از کم دو ماہ پہلے ایوان بالا میں پیش کیا جائے تاکہ ایوان بالا کے ارکان کو پی ایس ڈی پی کے لئے مختص رقوم کے معاملے میں بھرپور شرکت کا موقع مل سکے۔ وفاقی بجٹ اور قومی ترقیاتی بجٹ کے بارے میں بجٹ سے تین ماہ قبل سینیٹ کو اعتماد میں لیا جائے ایوان بالا نے سفارش کی ہے کہ 12 سے 24 لاکھ روپے تک کی آمدنی والے افراد کے لئے ٹیکس کی شرح کر 10 فیصد اور 24 سے 48 لاکھ روپے تک کی آمدنی والے افراد کے لئے 15 فیصد کرنے، فاٹا کے لئے 40اراب روپے مختص کرنے، زرعی مشینری کے لئے دی جانے والی رعایات جاری رکھی جائیں۔ سولر ٹیوب ویلوں کی تنصیب کے لئے بلاسود قرضہ فراہم کیا جائے۔ کم ترقی یافتہ علاقوں میں صنعتی شعبہ کی ترقی کے لئے ٹیکس اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔

مزیدخبریں