امریکی صدر نے طویل مذاکرات کے بعد صدر اوبامہ کی بدولت ایران سے ہوئے جوہری معاہدے سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ اقوامِ متحدہ اس معاہدے کو لیکن اب بھی برقرار رکھنے کی درخواست کررہی ہے۔ برطانیہ،فرانس اور جرمنی بھی اسے ختم کرنے کے حق میں نہیں۔ روس اور چین کی جانب سے میرے یہ کالم لکھنے تک کوئی سرکاری ردعمل نہیں آیا تھا۔یہ دونوں ممالک مگر ایران کے بین الاقوامی مقاطعہ کے دنوں میں بھی کسی نہ کسی صورت اس ملک سے تجارت اور وہاں سرمایہ کاری جاری رکھے ہوئے تھے۔ شاید اب بھی ان ہی راستوں پر گامزن رہیں۔
خالصتاََ Strategicحوالوں سے اگر سوچیں تو فی الوقت پاکستان کو ایک خاص تناظر میں امریکی صدر کے تازہ فیصلے پر تھوڑااطمینان محسوس کرنا چاہیے۔ ہمارا ازلی دشمن چاہ بہار کی بندرگاہ کو 500ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیاءسے اپنے روابط بڑھانے کے قابل بنارہا ہے۔ اس کی دانست میں چاہ بہار کی گہماگہمی گوادر کو گہنا بھی سکتی ہے۔چاہ بہار ہی سے ایک ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کی بدولت بھارت افغانستان تک ریل کے راستے پہنچنے کا منصوبہ بھی بنائے ہوئے ہے۔امریکہ نے اپنے حلیفوں کو ایران سے قطعی لاتعلقی پر مجبور کیا تو ان سب منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ناممکن ہوجائے گا۔ افغانستان سے بین الاقوامی روابط اور تجارت کے لئے صرف پاکستان ہی ہر حوالے سے حتمی انٹری پوائنٹ رہے گا۔
بین الاقوامی معاملا ت پر غور کرتے ہوئے لیکن وقتی اطمینان پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے منگل کی رات جو تقریر کی ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ کو میں نے بہت غور سے سنا ہے۔
اس تقریر میں ایران کے بارے میں اپنی نئی پالیسی کا اعلان کرنے کے بعد ٹرمپ نے سینہ پھلاکر دنیا کو یاد دلایا کہ کوریا اور ایران کے ضمن میں اٹھائے اس کے حالیہ اقدامات کے بعد لوگوں کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ محض دھمکیاں دینے کا عادی نہیں۔ ٹرمپ جو کہتا ہے کردکھاتا ہے۔
ٹرمپ کی اس بڑھک نے مجھے یاد دلایا کہ 2018کا آغاز ہوتے ہی سال نو کی صبح امریکی صدر نے دو ٹویٹ لکھے تھے۔ ان دونوں میں صرف پاکستان پر انتہائی بازاری زبان میں افغانستان کے حوالے سے امریکہ کو ”دھوکا“ دینے کا الزام لگایا گیا۔ شدید غم وغصے سے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان امریکہ سے امداد کے نام پر ”اربوں ڈالر اینٹھنے کے باوجود بھی مستقل دھوکہ بازی“ سے کام چلا رہا ہے۔ ”جو کہتا ہوں کردکھاتا ہوں“ کہتے ہوئے ٹرمپ مجھے یہ پیغام دیتا سنائی دیا کہ کوریا اور ایران کے بعد وہ پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ”نیا“ ہر صورت ضرور کرے گا۔
بہرحال جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ فوری تشویش کا باعث تو یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ کی ایران کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے سے لاتعلقی کا اعلان کرتی تقریر کے چند ہی لمحوں بعد اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع ایک فوجی اڈے پر فضائی حملہ کردیا۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ یہ اڈہ ایرانی افواج کو اسرائیل پر حملہ کرنے کے قابل بنانے کے لئے استعمال ہورہا ہے۔شام کے ہمسایے میں موجود شمالی اسرائیل کے چند شہروں میں ہائی الرٹ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ سرکاری طورپر یہ اعلان بھی ہوا کہ اسرائیل کے ریزروفوجی ایرانی حملے کی صورت عسکری فرائض سرنجام دینے کے لئے تیار رہیں۔
ایرانی صدر اور وزیر خارجہ نے لیکن فوری اشتعال کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ اقوام متحدہ،جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ مسلسل گفتگو اور روابط کے ذریعے جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے رہے۔ ایرانی صدر اور وزیر خارجہ باقاعدہ انتخابات کے ذریعے بنی حکومت کے نمائندہ ہوتے ہوئے بھی اس ملک میں قوت واختیار کے مگر حقیقی مالک نہیں۔ ایران کی خارجہ اور قومی سلامتی سے متعلق پالیسیاں طے کرنے کا حتمی اختیار ”روحانی سربراہ“ کے پاس ہے۔ ایرانی فوج کے متوازی ”سپاہِ پاسداران“ بھی ہیں جو فقط روحانی سربراہ کو جوابدہ ہیں۔ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد ہوئے جوہری معاہدے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے درحقیقت اس ملک کی روحانی (مذہبی) قیادت کو سیاسی قیادت کے مقابلے میں توانا تربنادیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا فوری ہدف بھی شاید روحانی اور سیاسی قیادت کے درمیان اختلافات کو ہوا دینا ہے۔ ایرانی صدر اور وزیر خارجہ جوہری معاہدے کے نتیجے میں اپنے ملک کو معاشی اعتبار سے تواناتر اور بین الاقوامی تجارت کا اہم مرکز بنانا چاہ رہے تھے۔ اس ضمن میں انہیں فرانس اور جرمنی سے بھرپور تعاون کی ضرورت تھی۔ ٹرمپ ایران کے اقتصادی مقاطعہ پر ڈٹ گیا تو ان دونوں ممالک کے لئے سیاسی حکومت کا ساتھ دینا ناممکن ہوجائے گا۔
حالیہ دنوں میں ایرانی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ حد تک گرچکی ہے۔سخت گیر اقتصادی پابندیوں کے بعد ایران میں افراطِ زر ناقابلِ برداشت ہوجائے گا۔ نوجوانوں میں پہلے سے موجود بے روزگاری مزید سنگین ہوجائے گی۔ٹرمپ اور اس کے مشیروں کو شاید یہ امید ہے کہ افراطِ زر اور بے روزگاری کی سنگینی ایرانی عوام کو اپنی روحانی قیادت کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کردے گی۔ایران میں ”عرب بہار“ جیسی کوئی شے ہوجائے گی۔ اندرونی خلفشار کے باعث ایران شام کے بشارالاسد کی مدد کے قابل نہیں رہے گا۔ یمن میں حوثیوں کا تحفظ نہیں کر پائے گا۔ لبنان میں حزب اللہ کو اسرائیل کے مقابلے ڈٹ کر کھڑا رکھنے کے قابل نہیں رہے گا۔
ایران کی سیاسی اور سماجی حقیقتوں کو اس ملک کا قریب ترین ہمسایہ ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے دائمی اور سیاسی حکمران کماحقہ انداز میں سمجھ نہیں پائے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ہمیں دفاعی اور قومی سلامتی کے امور کے بارے میں ”باخبر“ رکھنے والے امجد شعیب جیسے دانشور بھی اس ضمن میں محض یاوہ گوئی سے کام چلاتے ہیں۔
ایران میں ”روحانی“ اور سیاسی تقسیم“ سے بالاتر قوم پرستی کے جذبات بھی ہیں۔ عرب دشمنی اس قوم پرستی کا نمایاں ترین جزو ہے۔فردوسی کی شاعری نے اسے ایرانی قوم کے اجتماعی لاشعور میں جبلت کی صورت دے رکھی ہے۔ اسرائیل نظر بظاہر فی الوقت صرف شام کی سرزمین پر ایران کے ساتھ Proxyجنگ لڑنے کے چکر میں ہے۔ شام میں ایران سے منسوب فوجی تنصیبات پر حملوں سے ایران کو اسرائیل پر جوابی حملوں پر اُکسایا گیا تو اسرائیل ایران کو براہِ راست فضائی حملوں کا نشانہ بھی بناسکتا ہے۔
قوم پرستی کے جذبات سے مغلوب ہوئے ایرانی مگر اسی منصوبے کو براہِ راست سعودی عرب پر حملوں کے ذریعے بھی تو Preventکرنے کا سوچ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان شدید تر ہوتی مناقشت میں کسی ایک فریق کا ساتھ دینے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ مجھے غالباََ اس فریق کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ربّ کریم سے فقط فریاد ہی کی جاسکتی ہے کہ ہم کسی نہ کسی صورت تیزی سے ابھرتے ہوئے ایک خوفناک فتنے سے محفوظ رہیں۔
٭٭٭٭٭