ملتان (رخشندہ نیر سے) سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئرمین اور عالمی پانی اسمبلی کے چیف کوآرڈینیٹر حافظ ظہور الحسن ڈاہر نے کہا ہے کہ حکومتوں کی انتہائی غفلت متعلقہ اداروں کی بے حسی‘ انٹرنیشنل کرپٹ مافیا اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت سے بھارت دریائے چناب پر مزید 3 ڈیموں کی تعمیر کیلئے اقوام متحدہ سے کاربن کریڈٹ سرٹیفکیٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن اقوام متحدہ پاکستان کی اجازت کے بغیر یہ کاربن کریڈٹ سرٹیفکیٹ ہرگز جاری نہیں کر سکتی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوائے وقت سے خصوصی بات کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ انٹرنیشنل لا کے تحت کاربن کریڈٹ سرٹیفکیشن متاثرہ فریق کی رضامندی سے ہی جاری کئے جا سکتے ہیں اس میں پاکستان ہی متاثرہ فریق ہے اس لرزہ خیز کرپشن میں پاکستان کی وزارت ماحولیات‘ وزارت خارجہ اور کرپٹ مافیا کا ہاتھ ہے اور بھاری ڈیل کے ساتھ یہ معاملہ طے پایا گیا ہے۔ حافظ ظہور الحسن ڈاہر نے مزید کہا کہ جنوری 2011ء میں بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے دریاؤں چناب جہلم اور سندھ پر 7 بڑے ڈیموں کی تعمیر کیلئے اقوام متحدہ سے کاربن کریڈٹ سرٹیفکیٹس حاصل کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات میں یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ بھارت اس منصوبے کے تحت دریائے چناب جہلم اور سندھ پر 7 بڑے ڈیم تعمیر کرے گا بھارت اس سے قبل ہی پاکستان کی کرپٹ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھاری ڈیل کر کے دریائے سندھ پر نیموبازگو اور چوٹک ڈیم کی تعمیر کیلئے ہی کاربن کریڈٹ سرٹیفکیٹس حاصل کر چکا ہے۔ اب بھارت نے بڑے دھڑلے کیساتھ دریائے چناب پر 3 بڑے 21 چھوٹے دریائے جہلم پر 3 بڑے اور 24 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر شروع کی ہوئی ہے اس طرح بھارت دریائے سندھ پر کارگل ڈیم کے نام سے دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم تعمیر کرر ہا ہے دنیا کا یہ پہلا بڑا ماڈل 2028ء تک مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر 26 مئی 2008ء کو کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ختم نہ کیا جاتا تو بھارت دریائے سندھ پر یہ کارگل ڈیم ہرگز تعمیر نہیں کر سکتا تھا چونکہ سندھ طاس معاہدہ کے تحت مغربی دریاؤں چناب‘ جہلم‘ سندھ اور ان کے معاون ندی نالوں پر ڈیموں کی تعمیر کے سلسلے میں پہلا حق پاکستان کو ملا تھا بھارت دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ پاکستان کے آبی وسائل پہ یہودی لابی کے بھرپور اشتراک سے قبضہ کرنے کے متعلق ایک ہائی میگا واٹر پلان طے پایا گیا جس کے تحت ان دریاؤں کو بھارتی حدود میں بند کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ ظہور الحسن ڈاہر نے بتایا کہ کالا باغ ڈیم کے تنازع سے متعلق ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے کیلئے 4 نومبر 1993ء کو واپڈا ہاؤس پہنچا وہاں ایک غیر ملکی آبی ماہر نے دستاویزات سے آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اپنی حدود میں پاکستان کے دریاؤں پر 300 سے زائد ڈیم بنانے بیراج تعمیر کرنے اور 14900 کلومیٹر رابطہ نہریں نکالنے کے سلسلے میں پاکستان کے دریاؤں پر ایک طویل المدتی منصوبہ شروع کررہا ہے اسی وجہ سے کالا باغ ڈیم متنازعہ بنا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر چیف جسٹس سپریم کورٹ از خود نوٹس لیں تو میں تمام ریکارڈ عدالت عظمیٰ میں پیش کر دونگا۔