اسلام آباد (عترت جعفری) حال ہی میں منعقد ہونے والی جوڈیشل کانفرنس کے دوران ایف بی آر کے ممبر لیگل کی طرف سے شرکاء کو پری زنٹیشن دی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے بارے میں ’لبرل‘ نقطہ نظر سے ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر نے اپنی پری زنٹیشن کو پبلک کر دیا ہے تاہم کہا ہے کہ پری زنٹیشن میں بیان کردہ مؤقف ممبر لیگل ڈاکٹر طارق مسعود کی ذاتی رائے ہے۔ پری زنٹیشن میں کہا گیا کہ ملک کی مختلف عدالتوں اپیلٹ کے فورمز پر بڑی تعداد میں مقدمات زیرالتواء ہیں۔ حکومت کا ریونیو قانونی چارہ جوئی میں پھنسا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد بڑھ گئی ہے اس کی وجوہات میں ججز پر کام کا دباؤ‘ عدلیہ کی چھٹیاں‘ وکلاء کی ہڑتالیں‘ قوانین کی پیچیدگی اور دیگر ہیں۔ قانونی چارہ جوئی کی مختلف سطحیں ہیں۔ طویل زبانی دلائل ہوتے ہیں۔ عدلیہ کے بنچز میں ردوبدل ہو جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 199 کی پیروی نہیں کی جاتی۔ مناسب فورم موجود ہونے کے باوجود رٹ پٹیشن سماعت کے لئے منظور ہو جاتی ہیں۔ آرٹیکل 199 فور کے مطابق مدعا علیہم کو مناسب شنوائی نہیں ملتی۔ کیسز کا فیصلہ 6 ماہ میں نہیں ہوتا۔ عبوری ریلیف حتمی ریلیف سے بڑا ہوتا ہے۔ یہ سفارش کی گئی ہے کہ 1947 ء میں 5 ملین آبادی کے لئے ایک جج تھا اب 12.5 ملین آبادی کے لئے ایک جج ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 40 کی جائے۔ عدلیہ میں چھٹیوں کی تعداد کم کر کے بھی کیسز کے فیصلے جلد ممکن ہو سکتے ہیں۔ یہ سفارش کی گئی ہے کہ جہاں جہاں قانون میں حق تلفی کے ازالہ کے لئے طریقہ کار دیا گیا ہے اس صورت میں رٹ پٹیشن کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ رٹ دائر ہونے سے دو دن قبل اس کی کاپی اور دستاویزات ریونیو اتھارٹی کو فراہم کی جائے۔ ہائی کورٹس کوئی حکم جاری کرنے یا عبوری حکم دینے سے قبل مدعا علیہ ریونیو اتھارٹی کو نوٹس دے اور ان کے مؤقف کو سننے کا مناسب موقع دیا جائے۔ ’عبوری حکم‘ کی صورت میں سماعت روزمرہ بنیاد پر کی جائے۔