کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے کہ اتنا پڑھنے لکھنے کی بجائے کلرک بن جاتا۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ میرے ہسپتال کے کلرک نے میرے ہر قسم کے جائز کام کے لیے مختلف رٹ رکھے ہوئے ہیں…میری تنخواہ چار مہینے سے پھنسی ہوئی ہے۔ تنخواہ چالو کرنے کا ریٹ مجھے آج ہی معلوم ہوا ‘ریٹ ہر چیز کا ہے…حاضری بھیجنے کا الگ ریٹ ہے‘چیک پکڑانے کا الگ ریٹ ہے‘ آرڈر رکوانے کے الگ ریٹ ہیں اور آرڈر نکلوانے کے الگ ریٹ ہیں‘ پوسٹنگ کروانے کے الگ ریٹ ہیں‘میں ہسپتال سے باہر نکلتا ہوں تو معلوم پڑتا ہے کہ ہر چیز کے ریٹ ہیں‘نیچے سے اوپر تک ہر لیول پر کرپشن ہے‘ ریٹ لگا کر کسی کی فائل سب سے اوپر پہنچا دی جاتی ہے تو کسی کی فائل ردی میں پھینک دی جاتی ہے…میں خود چالان سے بچنے کے لیے پولیس اہلکار کی جیب گرم کرتا ہوں…سکول کی کس کتاب میں ہمیں ریٹ لگانا سکھایا گیا تھا؟ میری بوڑھی ماں اب بھی یہی سمجھتی ہے کہ کرپشن نواز شریف نے شروع کی اور عمران خان ختم کر دے گا…
میرا بیٹا اسلامیات کا سبق پڑھنے لگتا ہے…‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں آگ میں ہیں‘‘ میرے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں…سبق تو سکول میں ہم نے بھی یہی پڑھا تھا…لیکن زندگی گزارنے کے لیے سب نے اپنی اپنی کتاب لکھ ڈالی…جو ہم بچوں کی پہنچ سے دور رکھتے ہیں۔ کوئی گالی دینے سے پہلے بچوں کو کہتے ہیں ۔ بیٹا اپنے کمرے میں چلے جائو تاکہ ہم جھوٹ بول سکیں۔ گالی دے سکیں اور رشوت لے سکیں پھر بھی اپنے کمرے کے بند دروازے کے اُس پار بیٹھے بچے بڑے ہو کر ہمارے جیسے ہی ہو جاتے ہیں۔