تبدیلی آچکی!

ہماری فیملی میں ایک شادی کی تاریخ چار ماہ سے مقرر تھی۔ اس قدر پیش بندی اس لئے کہ بعض قریبی عزیزوں نے بیرون ملک سے آنا تھا اور ان کی سہولت کیلئے تاریخ بار بار بدلی گئی۔ بالآخر مارچ کے دوسرے ویک اینڈ کے حق میں فیصلہ ہو گیا۔ یعنی 13 مارچ مہندی‘ 14 بارات اور 15 ولیمہ۔ Vanue شاہراہ کشمیر کا ایک معروف ہوٹل ٹھہرا۔ مہمانوں کی رہائش سمیت سب تقریباً وہیں ہونا تھیں۔
کرونا کے سائے پڑنا شروع ہو چکے تھے۔ مہندی اور بارات تو جیسے تیسے بھگتا لی‘ ولیمہ سے چند گھنٹے پہلے لاک ڈائون ہو گیا اور گھر والوں سمیت ولیمہ کے مہمان رل گئے۔ ہوٹل والوں نے رہائشی بکنگ الگ سے کینسل کر دی اور ان بیسیوں مہمانوں کو گھر پر ٹھہرانے کی گنجائش تھی اور نہ کہیں اور۔ کیٹرنگ والوں کا اصرار تھا کہ ہماری تیاری تو پوری تھی‘ سو پوری پیمنٹ لیں گے اور بمشکل 75 فیصد پر راضی ہوئے۔ لوکل مہمان تو بھوکے پیاسے گھروں کو لوٹ گئے۔
اصل مسئلہ باہر سے آنے والوں کا تھا جو بے پناہ چائو اور تیاری کے ساتھ آئے تھے اور اب ایک ایک پل بھاری پڑ رہا تھا۔ بہرحال ایک انہونی داستان رقم ہوئی اور شادی کی یہ تقریب ایک بڑا ڈیزسٹر تھا۔ ملین سے اوپر خرچہ اٹھ گیا مگر سب کھوہ کھاتے۔
قرائن بتائے ہیں کہ کرونا چلا گیا تو بھی قربت اور گرم جوشی کے اظہار کے روایتی طریقے شاید ہمیں ایک طویل عرصہ کیلئے ترک کرنا پڑیں بلکہ یہ سب پہلے ہی شروع ہو چکا۔ مصافحہ و معانقہ ختم اور فقط سینے پر ہاتھ رکھنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ شادی بیاہ کی تقاریب میں انقلابی تبدیلیاں آچکیں۔ مایوں‘ مہندی کے نام پر ہفتہ بھر کی اچھل کود قصہ پارینہ‘ بارات اور ولیمہ کی روایت بھی دم توڑ چکی۔ نکاح گھریلو سطح پر آن لائن ہو رہے ہیں اور فاصلاتی شادیاں کلی طورپر ٹیکنالوجی کی مرہون منت۔ گھر کے اندر بھی فاصلہ رکھا جا رہا ہے۔ بچوں کے ساتھ والہانہ محبت بھی بتدریج ہماری زندگیوں سے نکل جائے گی۔ شہر میں ہم 25/30 لوگوں کا ایک سرکل ہیں جو ہفتے‘ پندھواڑے حیلے بہانے اکٹھا ہو جایا کرتے تھے اب شکلیں بھی بھولتی جا رہی ہیں۔ غرض سماجی قربت کے ہر عمل میں دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ سب سے زیادہ دبائو ہمارے تعلیمی نظام پر آئے گا۔ بچوں کا سکول‘ کالج جانا اور کلاس کی صورت میں اکٹھے بیٹھ کر تحصیل علم کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
آن لائن ایجوکیشن کو فروغ ملے گا جو اس وقت بھی جاری ہے اور میرا ساڑھے تین سال کا پوتا آن لائن پڑھ رہا ہے اور ہوم ورک بھی ٹیچر کو چیک کروا رہا ہے۔ یہ نظام دو فیصد اداروں میں تو شاید چل جائے‘ جہاں والدین پڑھے لکھے ہیں اور کریزی بھی مگر دیہی بچوں کا کیا بنے گا۔ جو پڑھتے ہی استاد کے خوف کی وجہ سے ہیں۔ یہ بیچ میں سے اٹھ گیا تو سمارٹ فون اور ٹی وی پر دیئے جانے والے سب درس بے سود ہونگے اور علم کے نام پر جہالت فروغ پائے گی اور فاصلاتی تعلیم کی پیداوار یہ کھیپ قوم کے کسی کام کی نہ ہوگی۔ یہ میلے ٹھیلے‘ عرس اور مذہبی اجتماعات بھی اگر ختم نہیں تو محدود ضرور ہو جائیں گے کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ وائرس جہاں بھی جاتا ہے پوری آبادی کو ٹٹولتا ضرور ہے اور جسے کمزور یا لاپروا پاتا ہے‘ دبوچ لیتا ہے۔
ہماری بدقسمتی کہ اس بار کا حج بھی مخدوش بلکہ اسے منسوخ ہی سمجھئے۔ مقدس مقامات پر کرفیو کا منظر امہ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ دہائی خدا کی حرمین شریفین بند‘ کعبہ بند‘ ازل سے جاری طواف بند‘ روضۂ رسولؐ بند‘ مسجد نبویؐ بند اور کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ بندش کب تک چلے گی۔ کیونکہ توکل اپنی جگہ‘ اونٹ کا گھٹنا باندھنا بھی ضروری ہے۔ بے شک دین اللہ اور بندے کا معاملہ اور کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ دوسروں سے زیادہ دیندار ہے او ر خالق و مالک کے زیادہ قریب۔ یہ معاملات بہت گہرے ہیں۔ کاش ہم سمجھ پائیں۔ حکومت چومکھی لڑ رہی ہے۔ اس کا ہمیں ادراک ہونا چاہئے اور احساس بھی۔ ایسے حالات میں گورننس کچھ آسان نہیں ہوتی۔ یہ ایک جہاد ہے اور’’جہادیوں‘‘ کا ہمیں ساتھ دینا چاہئے۔ اپنے اپنے راحت کدوں میں زندگی کا لطف اٹھاتے نقاد حرف تنقید سے پہلے ضرور سوچ لیا کریں کہ اس میں تعمیر کا کوئی پہلو ہے یا محض تنقید برائے تنقید‘ جو عملی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔
رہی بات کرونا کے بعد کی دنیا کی کہ اس ابتلاء سے گزرنے کے بعد کرہ ارض کے باسیوں کی زندگی کیسی ہوگی اور اس میں کون کون سی تبدیلیاں نمایاں ہونگی۔ تو ایک بات واضح ہے کہ بالعموم امن و آشتی کی بات کرنے والوں کو کسی حد تک اہمیت ملے گی۔ انسانوں کی تباہی کا سامان‘ جوہری اور غیر جوہری اسلحہ خانوں کی ضرورت پر سنجیدہ سوال اٹھائے جائیں گے کہ دنیا میں طاقت کا توازن بزعم خود بڑی طاقتوں کی ذمہ داری نہیں کیونکہ ان کی اپنی ’’طاقت‘‘ کی بنیاد ریت کے ڈھیر پر استوار ہے۔ اصل طاقت کوئی اور ہے۔ جو ان نام نہاد سپر پاورز کو کسی بھی لمحہ بے بس و بے کس بنا سکتی ہے۔ انسانی عظمت اور برابری کی بات ہوگی۔ انسانوں پر سرمایہ کاری کی ضرورت کا چرچہ ہوگا۔ انسانیت کے باہمی انحصار میں اضافہ کی بات ہوگی۔بزعم خود حفاظتی دیواریں اونچی کرکے اپنی عظمت کے زعم میں مبتلا نام نہاد اعلیٰ و ارفع قوموں اور تہذیبوں کو احساس دلانے کی کوشش ہوگی کہ ان کی یہ سوچ اور طرز حیات ایک منفی اپروچ ہے۔ دوسروں کو ساتھ لیکر چلنے اور تجربات شیئر کرنے سے انسانیت کو من حیث الجمیع فائدہ ہوگا۔

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

ای پیپر دی نیشن