حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بینچ کی جسٹس ذوالفقار احمد خان اور جسٹس محمد سلیم جیسر پر مشتمل ڈویڑن بنچ نے حکم دیاہے کہ سرکاری ملازمت کے باوجود صحافت کرنے والے تمام سرکاری ملازمین کے ایکریڈیشن/انفارمیشن کارڈ منسوخ کئے جائیں‘محکمہ اطلاعات سندھ، پریس کلب کی باڈیز میں شامل سرکاری ملازم عہدیداروں کی ممبرشپ ختم کرانے کے عدالتی احکامات پرایک ماہ میں عملدرآمد کرکے رپورٹ پیش کرے‘ عدالت نے سندھ حکومت کے تمام محکموں کے سیکریٹریز کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد کاحکم دیدیاہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بینچ میں 2017ء میں نوابشاہ کے صحافیوں مرغوب حسین رضوان تھیبو ودیگر کی جانب سے دائر آئینی درخواست میں کہاگیا تھا کہ نوابشاہ پریس کلب پر سرکاری ملازمین نے محکمہ اطلاعات سندھ کی جانب سے جاری کردہ ایکریڈیشن کارڈ کی بنیاد پر ممبرشپ حاصل کرکے قبضہ کرلیاہے اور عہدوں پر قابض ہوگئے اور عامل صحافیوں کو پریس کلب سے نکال دیاہے ‘سرکاری ملازمین کا صحافی کے طورپر کام کرنا سندھ سول سرونٹس کنڈکٹ رولز ،22،21اور23کی سنگین خلاف ورزی ہے کوئی سرکاری ملازم رپورٹر‘ سب ایڈیٹر‘ نیوز ایڈیٹر‘ ایڈیٹر یا ڈائریکٹر نیوز کے طورپر کام نہیں کرسکتا اس پر سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین پہنور نے نوابشاہ سمیت سندھ ہائی کورٹ کے ماتحت تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرون سے ایسے سرکاری ملازمین کی فہرست طلب کی تھی جو کہ صحافت کررہے تھے عدالتی احکامات پر 2019ء میں ڈپٹی کمشنر نوابشاہ نے 75صحافیوں کی فہرست پیش کی تھی جو سرکاری ملازم اور ان میں سے ایک وکیل تھا۔بدھ کو سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بینچ نے درخواست گزارکے وکیل بیرسٹر خادم حسین سومرو اورپٹیشن میں نامزد فریق نمبر 18ودیگر کے وکیل ایاز تینو کے دلائل کے بعد حکم دیاہے کہ صحافت کرنے والے تمام سرکاری ملازمین کے ایکریڈیشن/انفارمیشن کارڈ محکمہ اطلاعات فوری طورپر منسوخ کرے اورایسے سرکاری ملازم جو پریس کلبز میں عہدیدار ہیں ان کی پریس کلبز کی ممبرشپ منسوخ کرائی جائے، عدالت نے ڈپٹی کمشنر نوابشاہ کو حکم دیا ہے کہ 75 سرکار ملازم جو صحافی کی حیثیت سے کام کررہے ہیں ان کے خلاف محکمہ جاتی کاروائی کی جائے جبکہ عدالت نے سندھ حکومت کے تمام 22محکموں کے سیکریٹری کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد کاحکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ہے۔