کبھی ذہن میں یہ خیال ہی نہیں آیا نہ کبھی یہ سوچا کہ زندگی "ماں جی" کے بغیر بھی گذاری جاتی ہے۔ پیدا ہونے سے لے کر ان کی زندگی کے آخری سانس تک ہمیشہ یہ احساس رہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدہ کی صورت میں بہت بڑی نعمت سے نوازا ہے۔ میں جب بھی اپنی والدہ کو دیکھتا تھا تو قرآن کریم کی آیت ذہن میں آتی تھی۔ فبای آلا ربکما تکذبن
ترجمہ۔ اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
یقین مانیے والدہ بہت بڑی نعمت ہیں، بہت بڑی نعمت ہیں یقیناً ہم میں سے کوئی بھی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا اور یقیناً ہم میں سے کوئی بھی والدہ کا اس طرح احترام بھی نہیں کرتا ہو گا جو ان کا حق ہے۔ ماں ایسا تحفہ ہے، ایسی نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ یہ اللہ کی ایسی نعمت ہے کہ میں جب بھی اپنی والدہ کو دیکھتا تھا تو سمجھتا تھا کہ دنیا بھر کی نعمتیں مل گئی ہیں۔ سورہ الرحمن کی وہ آیت بار بار میرے سامنے آتی ہے۔ یقیناً والدہ ایسی ہی نعمت ہے جہاں انسان کو پیار، محبت، تحفظ، خلوص، تربیت، ان گنت دعائیں اور زندگی کی سب رونقیں ایک ہی جگہ نظر آتی ہیں۔ میں نے اپنی والدہ کے ساتھ لگ بھگ چوبیس برس اپنے والد صاحب کے بغیر گذارے ہیں۔ چار مئی کو ہم نے اپنی والدہ کو بھی اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
بیشک ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانے والے ہیں۔ چار مئی میرے لیے نہایت تکلیف دہ دن تھا جب مجھے اپنی والدہ کے انتقال کی خبر ملی اور میں نے ان کے انتقال اور انکی نماز جنازہ کا اعلان کیا۔ اپنی زندگی میں ہزاروں لاکھوں لفظ لکھ چکا ہوں اور نجانے کتنے ہی مزید لکھوں گا لیکن والدہ کے انتقال کے چند الفاظ لکھتے ہوئے نہ ہاتھوں میں جان تھی نہ ذہن کام کر رہا تھا اور نہ ہی انگلیاں ساتھ دے رہی تھیں۔ بہت بھاری دل کے ساتھ میں نے اپنی پیاری والدہ کے انتقال کی اطلاع دی۔ وہ دنیا سے تو چلی گئی ہیں لیکن جو دعائیں وہ میرے لیے کرتی رہیں وہ دعائیں ہمیشہ میری حفاظت کرتی رہیں گی۔
والدہ کے لیے سب کے جذبات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں کیونکہ کوئی بھی اپنی والدہ سے کم محبت نہیں کرتا ہر شخص اپنی حیثیت سے بڑھ کر ماں سے محبت کا دعویدار ہوتا ہے اور کوشش بھی کرتا ہے بعض لوگ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن میرے لیے یہ اظہار بھی بہت مشکل ہے۔ ماں کی محبت الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک صفت سے ماں کے مقدس رشتے کا احساس دلایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ اپنے بندے کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے یعنی ماں تو ہے ہی مکمل پیار اور اس کی محبت کی گواہی تو اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ زندگی میں جو کچھ بھی حاصل کیا ہے یا جو تھوڑا بہت کام کیا ہے وہ سب والدہ کی دعاؤں اور ان کی رہنمائی کی وجہ سے ہے۔ میں نے اپنی والدہ کے ساتھ اچھے حالات سے مشکل حالات اور پھر مشکلات سے آسودگی کا سفر ایک ساتھ طے کیا ہے۔ بیاسی برس کی عمر میں جب ہم نے انہیں اللہ کے حوالے کیا ہے اس دوران میں نے انہیں کبھی بیمار ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ کبھی ہسپتال نہیں گئیں ماسوائے آخری چند دنوں کے وہ ساری زندگی ادویات سے محفوظ رہیں۔ مائیں اپنے بچوں سے محبت کرتی ہیں لیکن میری ماں میری عزت اور احترام بھی کرتی تھی اور والدہ نے والد صاحب کے انتقال کے بعد میرے بہن بھائیوں کے سامنے بھی اس عزت اور احترام پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ اگر تم چاہتے ہوں کہ باہر عزت ہو تو سب سے پہلے گھر میں عزت کرو۔ جس کی گھر والے عزت نہیں کرتے باہر بھی اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ میں نے اپنی والدہ کو ہمیشہ ذکر الہیٰ میں مشغول دیکھا ہے۔ دن کا بڑا حصہ وظائف میں گذارتی تھیں۔ اپنی اولاد سے تو ان کی محبت تھی ہی لیکن میری بیٹی کے بچوں سے ان کا رشتہ بہت ہی مختلف تھا مجھے لگتا ہے کہ وہ میرے نواسے نواسی سے ہم سے بڑھ کر پیار کرتی تھیں اور اس کے مختلف انداز ہیں جو ناقابلِ بیان ہیں۔ میری بہن بتاتی ہیں کہ جب میں گھر سے نکلتا جب تک آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو جاتا تھا والدہ اس وقت تک یہ دہراتی تھیں" اللہ دی امانت، اللہ دے حوالے" میں گھر سے نکلتا تو گاڑی کے سائیڈ مرر سے دیکھتا تھا جب تک گاڑی مڑ نہیں جاتی والدہ ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آتیں۔ میں گھر سے نکلتا تو والدہ ماتھا چومتیں، گھر واپس آتا تو ہاتھوں پر پیار کرتی تھیں۔ یہ محبت اور احساس کا اپنا ایک انداز ہے رخصت ہوتے ماتھے پر بوسہ تحفظ کا انجانا احساس ہے اور واپسی پر ہاتھوں پر پیار ساری تھکاوٹ مٹا دیتا تھا۔ یقیناً اب ماتھا چومنے اور ہاتھوں پر پیار دینے اور اپنی دعاؤں میں رخصت کرنے والی وہ شفیق ہستی تو نہیں ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ماں کی دعاؤں سے میں کبھی محروم نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے پاس والدہ کی اتنی دعائیں ضرور محفوظ ہوں گی جو ساری زندگی حفاظت کرتی رہیں گی۔
والدہ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ بیاسی برس کی عمر میں بھی میرے لیے چائے خود بناتی تھیں۔ مجھے سوجی کا حلوہ بہت پسند ہے وہ اس عمر میں بھی اپنے ہاتھ سے سوجی کا حلوہ تیار کرتی تھیں کہ اکرم کو حلوہ بہت پسند ہے۔ میں نے زندگی کے معاملات میں جو کچھ بھی سیکھا ہے سب کچھ اپنی والدہ سے سیکھا ہے۔ پڑھنے لکھنے اور بولنے کا شوق اور تربیت والد صاحب سے ملی۔ وہ اپنے ساتھ بٹھاتے اخبار دیتے اور پھر سارا اخبار میں انہیں سنایا کرتا تھا یوں اخبار کے ساتھ بچپن سے قائم ہونے والے تعلق کی وجہ والد صاحب کی تربیت ہے۔ یہ تعلق آج بھی قائم ہے۔ باقی ملنا جلنا، لوگوں سے بات کرنا، رہن سہن، رکھ رکھاؤ، آنا جانا، بات چیت، لب ولہجہ سب کچھ والدہ نے سکھایا ہے۔ مجھے والدہ نے ہمیشہ نرم مزاجی کا درس دیا ہے، لوگوں سے ملتے رہنے اور لوگوں کی مدد کا سبق دیا۔ اس معاملے میں ہو سکتا ہے میں مکمل طور پر ان کی تعلیمات پر عمل نہ کر سکوں لیکن جو کچھ بھی اچھا کرتا ہوں اس کی بنیاد والدہ کی دہائیوں کی محنت ہے۔انہوں نے زندگی بھر ہمیں محبت دی ہے ہمارا خیال رکھا ہے اور آخر میں انہی کے الفاظ کو دیکھتے ہوئے یہی کہوں گا کہ "اللہ دی امانت، اللہ دے حوالے" اللہ تعالیٰ میری والدہ کی تمام خطاؤں، لغزشوں، کوتاہیوں، نادانیوں کو معاف فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آپ سب سے بھی دعائے مغفرت کی درخواست ہے۔
والدہ کی نماز جنازہ میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی، مولانا زبیر البازی، جماعت اسلامی کے قیصر شریف، نصراللہ ملک، میاں حبیب، شاہد رشید، لیفٹیننٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری‘ دلاور چودھری، شفیق سلطان، قیصر ندیم، بلال بٹ سمیت تمام دوستوں کا مشکور ہوں کہ اس مشکل وقت میں وہ ساتھ کھڑے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔
والدہ کے انتقال پر تعزیت کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار گھر تشریف لائے میں ان کا مشکور ہوں اللہ تعالیٰ ان کا آنا اور دعا کو قبول فرمائے۔ ان کے علاوہ سابق وزیراعظم اور صدر مسلم لیگ ق چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے سالک چوہدری تعزیت کے لیے گھر ا?ئے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق، معروف مذہبی سکالر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ، دربار سید دیدار علی شاہ مشہدی کے سجادہ نشین صاحبزادہ پیر سید نثار اشرف رضوی سمیت ارکی قومی و صوبائی اسمبلی سمیت سیاسی شخصیات جن میں جماعت اسلامی کے اصغر علی، سردار نصراللہ دریشک، سرداررضا دریشک، غزین عباسی، سابق سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین، سمیع اللہ چوہدری، وسیم لنگڑیال، چوہدری نوریز شکور، رضا حیات ہراج، رانا نذیر احمد، یاسین سوہل، عمران گورایا، اشرف ممتاز نے دکھ کی اس گھڑی میں یاد رکھا میں ان سب کا مشکور ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کا آنا اور فون پر ہونے والی دعائیں قبول ہوں۔