دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے ،لیکن

خبروں کے مطابق بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن کارروائیوں کے بعد حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ اب بھارتی ہندووں کو اپنے مردے جلانے کے لیے نہ لکڑی مل رہی ہے اورنہ شمشان گھاٹوں میں جگہ مل رہی ہے ، اس لیے اب سننے میں آیا ہے کہ ہندوئوں اپنے مردوں کو دریا میں پھینکنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔کرونا وبا نے بھارت کو اپنے شکنجے میں لے لیا ہے اور اس کے پیچھے بھارت سرکار کی اپنی لاپروائیوں کا ایک سلسلہ ہے ۔اب بھارت میں کرونا کی وجہ سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر رہے ہیں ۔ ایسے میں پاکستانی قوم بھارتی لوگوں سے انسانی ہمدردی کا بہت زیادہ اظہار کر رہی ہے ۔بھارتی لوگوں کے لیے انسانی ہمدری کے نام پر دعائیں کی جارہی ہیں۔حکومت کی طرف سے بھارت کو امداد کی پیشکش کی جارہی ہے اور انسانی ہمدردی کے نام پر بھارت کو دنیا بھر سے امدادی سامان پہنچنا شروع ہوچکا ہے ۔اچھا ہے انسانی ہمدردی کی جانی چاہیے ۔اور دشمن کے وبا میں بے بس ہوجانے پر اس کی ہر ممکن مدد کر لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ انسانی ہمدردی کے حوالے سے بھارت سرکار کا  اپنا رویہ اپنے ملک میں بسنے والے مسلمانوں اور کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں سے کیسا ہے ۔ہمیں دیکھنا ہے کہ کس طرح بھارتی حکومت کی شہ پر متشدد سوچ کے حامل ہندو غنڈے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگیاں عذاب بناتے چلے آرہے ہیں۔ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ بھارتی جابر و قابض فوج کس طرح مقبوضہ کشمیر میں مسلمان نوجوانوں کو شہید کر رہی ہے ،مسلمانوں کے گھر جلارہی ہے ،معصوم بچیوں سے لے کے عمر رسیدہ عورتوں تک کی عزتیں لوٹی جا رہی ہیں ۔ہمیں دیکھنا ہے کہ بھارت سرکار کس طرح اقو ام متحدہ کی انسانی حقوق کے لیے تجویز کی گئی قراردادوں سے انحراف کر رہی ہے ۔بھارت میں کرونا سے مرنے والوں،بیماروں سے ہمدردی کرنے سے کچھ پہلے ہمیں یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ قابض بھارت اور اسرائیل کی طرف سے کشمیر و فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھا جارہا ہے ۔ابھی دو دن پہلے کس طرح اسرائیلی فوج کے درندوں نے نماز پڑھتے مسلمانوں پر گولیوں کی بارش کی ہے ۔انسانی ہمدردی کی بات کرنے والوں سے اتنا ہی کہنا ہے کہ ذرا تصور میں کشمیری لوگوں کی حالت کے بارے میں سوچ لیں کہ جن لوگوں کے گھروں کے دروازوں پر فوج کھڑی ہو،ان کا کیا حال ہوتا ہوگا ۔جہاں ہر روز بازار بند ہو جاتے ہوں گے وہاں لوگوں کو کھانے پینے ،جینے مرنے کے لیے کیا کیا مصیبتوں کاسامنا کرنا پڑتا ہوگا ۔
صاحبو!ہمیں آج دیکھنا ہے کہ کیا بھارت کی پاکستان سے متعلق پالیسیاں تبدیل ہوچکی ہیں۔ہمیں آج یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس وبا کے دور میں کیا بھارت سرکار کشمیری مسلمانوں کو انسانی ہمدردی کے نام پر ان کا پیدائشی حق یعنی حقِ خودارادیت دینے کو تیار ہو رہی ہے۔اس کا جواب ہے کہ بھارت سرکار کو بھارت میں بسنے والے اور کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے انسانی ہمدردی سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔تو پھر ہمیں بھی بھارت سے دوستی مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط کر دینی چاہیے ۔کشمیر میں آگ و خون کا کھیل مسلسل کھیلا جارہا ہے ۔ہر روز بھارتی درندے بیگناہ کشمیری نوجوانوں کو شہید کر رہے ہیں ۔خواتین کی عزتوں سے کھیلا جارہا ہے ۔مگر انسانی ہمدردی کے نام پر کہیں سے بھی اس ظلم کو روکنے کے لیے با مقصد کوششیں ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں ۔بھارت جتنا ظلم کشمیریوں پر کر رہا ہے مہذب کہلانے والی دنیا کی آنکھوں میں اگر ذرا بھی شرم ہوتی تو وہ انسانی ہمدردی کے نام پر بھارت کو ضرور اس سے روکتا  ۔ہماری حکومتوں نے ہر دور میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے ۔صرف سال میں ایک دن کشمیریوں کے حقوق کی بات کر کے سمجھتے ہیں کہ بس حق ادا ہوگیا ۔ہمارے حکمران بھول جاتے ہیں کہ پاکستان نے تو کشمیریوں کا وکیل بن کے ان کا کیس مسلسل لڑنا تھا۔
آج جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں حضرت مجید نظامی کا یوم وصال ہے اور آج انسانی ہمدردی کے نام پر بھارت کی طرف ہاتھ بڑھانے والوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے جناب مجید نظامی صاحب کے الفاظ یاد آجاتے ہیں کہ جب انہیں ایک قافلے میں بھارت جانے کی پیشکش کی گئی تو جناب نے فرمایا کہ میں ٹینک پر بیٹھ کر توبھارت جاسکتاہوں، مسافر جہاز پر بیٹھ کر نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جناب مجید نظامی صاحب کی ایک طرف پاکستان سے محبت تھی تو دوسری طرف آپ بھارتی متشدد ہندووں کی سوچ سمجھتے ہوئے بھارت سے تعلقات استوار کرنے میں احتیاط برتنے کے حامی تھے ۔ہمیں بھارت میں کرونا کیسز کی بڑھتی تعداد اور اس کے نتیجے میں اموات پر تشویش ہے۔ لیکن ہمیں کشمیری مسلمانوں کی حالت زار پر بھارت سرکار کا رویہ بالکل بھی قبول نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن