اسلام آباد(قاضی بلال؍وقائع نگار خصوصی ) ملک بھرمیں سرکاری سطح پرکینسر کا علاج نہ ہونے کے برابر ہیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سب سے بڑے ہسپتال پاکستان انسٹیٹویٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) میں سہولیات ناپید ہیں جبکہ دوسرے بڑے ہسپتال میں پولی کلینک میں سرے سے کوئی وارڈ ہی نہیں ہے۔ کینسر کے حوالے سے متعدد بار نیشنل پروگرام بنائے گئے مگر آج تک کسی وزیر صحت نے اس پر عمل نہ کیا اور کینسر نیشنل پروگرام فائلوں میں دب کر اپنی موت آپ مر گیا ہے۔پرائیویٹ ہسپتالوںمیں کہیں بھی مفت علاج نہیں ہو رہا ہے لاکھوں روپے لئے جا رہے ہیں پرائیویٹ ہسپتالوںکو کھلی چھٹی ملی ہے ۔ حکومتی سطح پر نہ فنڈز دیئے جاتے ہیں اور ہی تربیت یافتہ عملہ فراہم کیا جاتا ہے ۔ کشمیرکے پی کے سے پنڈی اورجہلم تک کینسر کا سرکاری سطح پر کوئی علاج نہیں ہو رہا ہے۔ نیشنل کینسر پروگرام کا باقاعدہ ایک ہوم ورک مکمل کیا گیا مگر کسی بھی حکومت نے اس پر عمل نہ کیا کئی وزیر صحت آئے مگر اس پر عملدرآمد کرانے کیلئے کوئی تیار ہوا ۔ پیرائیویٹ مافیا کے سامنے سرکاربھی گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔پورے ملک میں کتنے کیسنر کے مریض ہیں اس کا ڈیٹا تک نہ وفاقی حکومت کے پاس اور نہ ہی کسی صوبائی حکومت کے پاس ہے پرائیویٹ ہسپتال والے یہ ڈیٹا کسی کو نہیں دیتے ہیں ۔ پاکستان اٹامک انرجی کے پورے ملک میں اٹھائیس ہسپتال ہیں ان میں اٹھارہ میں کینسر کا مکمل علاج کیاجاتا ہے ۔ ان کے پاس مکمل ریکارڈ ہے مگر وہ کسی سے شیئر نہیںکرتے ہیں ۔ دوسری جانب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولی کلینک ہسپتال میں صرف مریض کا چیک اپ کیا جاتا ہے اور فوری طورپر اسے ریفر کردیا جاتا ہے البتہ معمولی نوعیت کے کیسز میں آپریشن کی سہولت دی جارہی ہے۔پمز ہسپتال میں ایک وارڈ بنایا گیا ہے جس میں مجموعی طورپر سولہ بیڈز مختص کئے گئے ہیں ۔ اس حوالے سے جب ڈائریکٹر پمز ڈاکٹر منہاج السراج سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ناکافی سہولیات ہیں پمز میں اس وقت بھی کورونا کے باوجود بارہ بیڈز پر کینسر کے مریض موجود ہیں ۔ او پی ڈی بند ہونے کے باوجود روزانہ چار سومریضوں کا چیک اپ کیا جاتا ہے۔