لاہور (شیخ طاہر علی) صوبائی دارالحکومت میں صنعتی یونٹس کے زیر زمین پانی کو آلودہ کرنے کے سبب پینے کے پانی کے ذخائر صرف دو سو فٹ رہ گئے۔ بااثر صنعتی یونٹس مالکان ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب کرنے سے گریزاں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی میں آلودگی کی شرح اسی طرح بڑھتی رہی تو پینے کا پانی کے شدید مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ شہر میں زیر زمین پانی ڈالنے والے صنعتی یونٹس کی تعداد تین سے زائد ہے۔ سندر انڈسٹریل اسٹیٹ، قائد اعظم انڈسٹریل اسٹیٹ، شاہدرہ ڈرین، چڑ چڑ ڈرین روہی نالہ میں بغیر ٹریٹمنٹ کیمکل زدہ زہریلا پانی ڈالا جا رہا ہے، جس سے زیر زمین پانی ناقابل استعمال ہوتا جا رہا ہے۔ واسا نے آٹھ سو فٹ تک ٹیوب ویل لگائے ہیں جبکہ زیر زمین پینے کا پانی ایک ہزار فٹ تک ہے۔ صرف دو سو فٹ پانی کے ذخائر قابل استعمال ہیں ، ماہرین کا کہنا ہے کہ بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو کراچی کی طرح لاہوریوں کو بھی پانی کے ٹینکر خریدنا ہونگے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات فوکل پرسن کمشن نے نوائے وقت کو بتایا کہ کمشن کی نگرانی میں کارروائی کا سلسلہ جاری ہے جبکہ گزشتہ روز فوڈ ٹرینڈ سندر اندسٹریل اسٹیٹ، سندر فلور مل، المختار فلور مل اور الاعریبیہ فلور مل کو سربمہر کر دیا ہے، گزشتہ ایک سال میں زیر زمین پانی کو آلودہ کرنے کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔