میں نے والد صاحب سے بات کی کہنے لگے کن چکروں میں پڑ گئے ہو۔ جب ماموں نے میری ہاں میں ہاں ملائی تو مان گئے۔ سلطان رکن خان چیف آف گکھڑ سے دیرینہ تعلقات تھے۔ وہ اور ان کا بھائی جارج سکندر زمان صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے اور وزیراعلیٰ مظفر علی قزلباش سے گہرے مراسم تھے۔ والد صاحب نے ان سے بات کی۔ وہ مجھے اپنی کار میں بٹھا کر مری لے گئے۔ وہاں ہم چودھری سعی محمد ایم پی اے اور غلام رسول تارڑ سے ملے۔ دونوں ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے ممبر تھے۔ صدارت کمشنر کرتا تھا۔
جب ہم اوبرائے سیسل پہنچے تو سورج غروب ہونے والا تھا۔ گاڑی سے باہر نکل کر میں نے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ ہم پاکستان کی حدود میں کھڑے ہیں۔ نیچے وادی میں حد نگاہ تک دیودار اور شاہ بلوط کے درختوں نے چھتری تان رکھی تھی۔ سورج کی سنہری کرنیں سبزے کے اس وسیع سمندر میں جذب ہو رہی تھی۔ چار سو جنگلی پھول کھلے تھے۔ سرخ چھتوں والے ڈربہ نما مکان جگہ جگہ نظر آتے۔ تازہ تازہ بارش ہوئی تھی۔ ہر چیز دھل کر نکھر گئی تھی۔ بہت نیچے شوریدہ سربرساتی نالہ‘ کف اڑاتا‘ پتھروں سے ٹکراتا پوری روانی سے بہہ رہا تھا۔ کالرج نے کہا تھا۔
You will find a tongue in the running brooks and develope close intimacy with nature.
میں نے سمجھنے کی بہت کوشش کی‘ لیکن ندی کا پیغام واضح نہ تھا۔ البتہ ماحول بہت دوستانہ نہ تھا۔
جب ہم ممبران اسمبلی کے کمر میں پہنچے تو وہ چائے پی رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ چائے منگوائی اور حکومت کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ جب سلطان صاحب حرف مدعا زبان پر لائے تو سعی محمد جھٹ سے بولا ’’حضور اس چھوٹے سے کام کیلئے آپ نے کیوں تکلیف کی۔ ہمیں خان پور بلوا لیا ہوتا۔ چٹ لکھ کر بھیج دیتے۔ ایک پیغام کافی تھا۔ آپ صرف گکھڑوں کے چیف نہیں‘ ہمارے بھی سردار ہیں۔‘‘
کافی دیر گپ شپ رہی سلطان صاحب کم گو تھے۔ واپس جانے سے پہلے ہم نے مال روڈ کا چکر لگایا۔ ساری رونق جی پی او چوک سے لیکر آرمی کے بیریئر تک تھی۔ مال روڈ کے گردونواح میں تو کئی چھوٹے موٹے ہوٹل تھے‘ لیکن مرکزی مال پر Sams لنٹاس اور فرکوسس ہی پرکشش تھے۔ جو لوگ زیادہ سیر کے رسیا تھے وہ دن کو کشمیر پوائنٹ سے پنڈی پوائنٹ کا چکر ضرور لگاتے۔ پنڈی پوائنٹ سے رات کو راولپنڈی شہر کی روشنیاں نظر آتیں اور دوسرے سرے سے وادی کشمیر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ ہر چند کہ چائے پی آ ئے تھے‘ لیکن سلطان صاحب نے اصرار کرکے سیمز میں ملک شیک پلایا۔
آرٹی اے کی میٹنگ کمشنر کیمپ آفس میں ہوئی۔ یہ جی پی او سے چند فرلانگ کے فاصلے پر سہگلوں کے لاج کے قریب تھا۔ سارے ڈویژن کے ٹرانسپورٹر آئے تھے۔ کمشنر سید غیاث الدین احمد تھے۔ جب میرا نام پکارا گیا تو میرے اندر داخل ہوتے ہی چودھری سعید محمد نے نعرہ مار دیا۔ ’’سید بادشاہ نوں پرمٹ ضرور وینڑا اے‘‘ میٹنگ ختم ہو گئی۔تلہ گنگ کے سب ٹرانسپورٹروں نے مجھے پیشگی مبارکباد دی‘ لیکن ماموں متاثر نہ ہوئے۔ کہنے لگے میں نہیں سمجھتا تمہیں پرمٹ ملے گا۔ یہ بڑا بولا محض خانہ پری کر رہا تھا۔ یہ تو کسی شخص کو بخار بھی ادھار نہیں دیتا۔ تمہیں اتنی قیمتی چیز کیسے دے گا۔‘‘جب چند روز بعد کمشنر آفس میں کامیاب امیدواروں کی لسٹ لگی تو مجھے اپنا نام ڈھونڈنے میں چنداں دشواری پیش نہ آئی۔ اگر درج ہوتا تو ملتا۔ (ختم شد)