شوال کی خوشبو ،روایات اور تسلسل عبادات

الف کی تلاش…سعدیہ کیانی
Sadianpk@gmail.com
دو عیدوں  یعنی عید الفطر اور عید الضحیٰ کے درمیان نکاح  سے  متعلق بہت سی بے بنیاد روایات سننے کو ملتی ہیں۔ اسلام نے نکاح پر کسی مہینے  کوئی پابندی عائد کی نہ اسلام نحوست اور بد شگونی جیسی باتوں کو پسند کرتا ہے،یہ تمام باتیں لوگوں کی کم علمی کے سبب جنم لیتی ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم  درست تعلیمات کو سیکھیں سمجھیں۔ہجر ی سال کا دسواں مہینہ شوال ہے ، اس ماہ مبارک کے حوالے سے نحوست کی باتیں لایعنی ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات سے انحراف بھی ہے کہ یہ مہینہ درحقیقت  بہت سی خصوصیات اور فضائل سے مالا مال ہے۔ پہلی خصوصیت تو  عید الفطر ( یوم الرحم ) جو شوال کا چاند نظر آتے ہی یکم( شوال )کو منائی جاتی ہے۔مسلمان اس روز نئے لباس پہننے کا ثواب حاصل کرتا ہے اور اگر نیا میسر نہ ہو تو صاف ستھرے پاک کپڑے زیب تن کرکے  اپنی وضع قطع کو سنوارے اور نماز عید ادا کرے ، میٹھا کھانا اور خوشی کا اظہار کرنا سنت میں شامل ہے۔ 
مشکوٰۃ  شریف کی حدیث یوں ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو تو  فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کیلئے پکارتے ہوئے۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں۔ حضور اقدس ? نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔یعنی اللہ تعالی مسلمانوں کے روزے کی مشقت کے بدلے عید کا دن  اجرت کے طور پر عطا فرماتا ہے۔ حضرت انس بن مالک  فرماتے ہیں کہ نبی کریم ?نے فرمایا، اللہ تعالیٰ اس شخص کو، جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرمادیتا ہے اورعید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو (اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے)  کہ نبی کریم ? کے امتیوں اپنے رب کی طرف بڑھو ،وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا   اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے، پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہوجاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا  اور کسی گناہ کو بغیر معاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ''مغفور'' ہو کر لوٹتے ہیں۔ 
دوسری خصوصیت اس ماہ میں چھ مسنون روزے رکھنے کا اجر و ثواب ہے ان کی بڑی فضیلت ہے ، صرف عید  کا دن چھوڑ کر ان روزوں کو ایک ساتھ بھی رکھ سکتے ہیں اور پورے ماہ شوال میں کسی بھی دن الگ الگ بھی روزہ رکھ سکتے ہیں ، روزے مسلسل رکھے جائیں یا  الگ الگ رکھے جائیں  یہ مسلمان کی اپنی صوابدید پر ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ عیدین والے دن روزہ رکھنا جائز نہیں۔حدیث رسول ہے : دو دن میں روزہ نہیں ہے ، عید الفطر کے دن اور عید الاضحیٰ کے دن۔امام طبرانی کی روایت ہے کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک ہوگیا جیسے اپنی پیدائش کے دن تھا۔تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس ماہ مبارک سے حج کے مہینوں کی ابتدا  ہوتی  ہے،اس میں ایک وضاحت ضروری ہے اکثر لوگ اس بات سے الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ماہ شوال کو  حج کا مہینہ کیوں کہا گیا ؟
 تو اسے یوں سمجھا جائے کہ زمانہ قدیم میں سفر حجاز کے لئے جانوروں یعنی اونٹ،گھوڑے،ہاتھی وغیرہ  پر سواری کی جاتی تھی اور  اس سفر میں مہینے لگ جاتے تھے آجکل جہازوں کی طرح کوئی تیز رفتار  سواری موجود نہ تھی تو جو لوگ حج کرنا چاہتے وہ ماہ شوال میں ہی اس کا قصد و اہتمام کرنے لگتے تھے  اسی لئے روایات اسے حج کا مہینہ بتاتی ہیں۔چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ  ماہ شوال میں اعتکاف کرنا نبی کریم ? کی سنت مبارکہ سے ثابت ہے،رسول اللہ ?نے ایک سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف نہیں کیا اور شوال میں اس کی قضائ￿  فرمائی،اس سے ثابت ہوا کہ اگر کسی سے رمضان میں اعتکاف  رہ جائے تو  ماہ شوال کے دس دن میں اعتکاف کرسکتا ہے۔اعتکاف کی بنیادی شرط میں خالص نیت اعتکا ف ہونا ضروری ہے۔پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ نبی کریم ? اور صحابہ رضوان  سمیت   علمائ￿   اسلام و  دیگر اسلاف نے بھی ماہ شوال میں  نکاح  کرنا احسن جانا۔ اس بابت حضرت عائشہ  سے مروی صحیح مسلم  کی حدیث دیکھئے۔رسول اللہ?نے مجھ سے شوال میں نکاح مبارک کیا اوررخصتی شوال میں ہوئی۔ 
یہاں یہ وضاحت ضروروی ہے کہ دور جدید میں بھی  زمانہ  جاہلیت کی طرح  بعض حلقوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ دو عیدوں یعنی عید الفطر و عید الضحیٰ کے درمیانی عرصہ میں شادی منحوس ہے یا بد شگونی ہے۔  حضرت حمزہ کی شہادت بھی ماہ شوال میں ہوئی جو نبی مکرم ?کے پیارے چچا تھے اور ان کی شہادت نے آپ ? کو بہت غمگین فرمایا کہ آپ ? نے اس برس کو غم کا سال فرمایا۔مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات کو خوب توجہ اور محنت سے  سیکھیں اورسمجھیں اور جہالت کی رسم و رواج سے بچیں تاکہ اللہ اور اس کے رسول ?کو راضی کرسکیں۔

ای پیپر دی نیشن