سمجھ نہیں آرہی کہ عالمی ساہوکار مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر گزشتہ ایک سال سے ہمارے عالی دماغ دوزانو ہو کر کیوں بیٹھے ہیں اور اپنی ناک اور ایڑیاں کیوں رگڑے چلے جا رہے ہیں۔ ہر ہفتے ڈیڑھ ہفتے بعد قوم کو یہ لالی پاپ دیا جاتا ہے کہ آج آئی ایم ایف کے ساتھ فلاں سطح کی بات چیت ہوئی ہے اور اب اسکے ساتھ فلاں سطح کا معاہدہ ہونے ہی والا ہے جس کے بعد ’’ستے خیراں‘‘ اور قوم کے وارے نیارے۔ بس اب خوشحالی کی منزل آنے میں چند ساعتوں کا فاصلہ ہی رہ گیا ہے اور عوام کے غربت‘ مہنگائی سے پیدا ہونیوالے دکھوں کا مداوا ہونے ہی والا ہے۔
معزز قارئین! کیا فی الواقع ایسا ہی نہیں ہے اور کیا آئی ایم ایف نے ہمارے حکمرانوں کو مسلسل ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں لگایا ہوا؟ اب تو ہمیں چکمہ دیتے دیتے آئی ایم ایف نے اپنے گھوڑے کی باگیں ہی کھینچ لی ہیں جس کے ہمارے ساتھ رعونت کے مظاہرے کا آج شائع ہونیوالی اس خبر سے ہی اندازہ لگا لیں کہ آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاسوں کے جاری کئے گئے شیڈول میں پاکستان کا نام ہی سرے سے ایجنڈے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ یعنی پاکستان بے شک ناک رگڑتا رہے‘ اپنے آنیوالے بجٹ میں آئی ایم ایف کی خواہش اور ڈکٹیشن کے مطابق عوام پر مزید ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ ڈالنے کا بے شک اہتمام کرلے‘ آئی ایم ایف نے اس کیلئے ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا کام ہی کرنا ہے۔ اسے بیل آئوٹ پیکیج کی سوا ارب ڈالر کی اگلی قسط ادا نہیں کرنی‘ عملاً ترساتے ہی رہنا ہے اور اسکی مسلسل منت سماجت سے حظ اٹھانے کا اہتمام ہی کرنا ہے۔
بھلے یہ بیل آئوٹ پیکیج آئی ایم ایف سے سابق حکمران پی ٹی آئی نے منظور کرایا تھا اور چاہے پی ٹی آئی حکومت نے ہی اپنے سیاسی فائدے کیلئے آئی ایم ایف کو غصہ دلا کر اس پیکیج کو معطل کرایا مگر اب تو حکمران اتحادیوں کے اقتدار کا بھی ایک سال گزر چکا ہے۔ اگر یہ آئی ایم ایف کی ہر کڑی اور ناروا شرط قبول کرنے اور اسکے نتیجے میں عوام کو عملاً زندہ درگور کرنے کے باوجود آئی ایم ایف سے قرض پروگرام بحال نہیں کر اسکے اور اس نے اپنے 17 مئی تک کے جاری کردہ ایجنڈے میں پاکستان کو شامل کرنا بھی ضروری نہیں گردانا۔ نتیجتاً رواں ماہ کے دوران پاکستان کو آئی ایم ایف سے پیسے ملنے کا امکان عملاً ختم ہو چکا ہے تو کیا ہمارے خوش فہم عالی دماغوں کیلئے یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے۔
اسکے برعکس ہمارے اب تک کے حکمران اشرافیہ طبقات نے قومی ریاستی دولت و وسائل کو جس بے رحمی کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے اور اپنی تجوریاں بھری ہیں‘ اس کا حساب کتاب کرلیا جائے۔ ان سے قومی وسائل کی لوٹ مار کی پائی پائی نہ سہی‘ اس کا نصف بھی ان سے اگلوا لیا جائے اور آئندہ کیلئے اس چوربازاری اور لوٹ مار کا ہر دروازہ اور ہر سوراخ بند کر دیا جائے تو خدا کے فضل سے ہم ہمیشہ کیلئے اپنے سرپلس اور خسارے سے پاک قومی اور صوبائی میزانیوں کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ مگر اس اہتمام کی جنہوں نے ذمہ داری ادا کرنی ہے وہ قوم کو بس لالی پاپ دینے کی مہارت ہی رکھتے ہیں جن کے اپنے ہاتھ قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار اور اقرباء پروری والے کلچر میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ یہ حکمران اشرافیہ طبقات صرف حکومت کا حصہ نہیں‘ اپوزیشن بنچوں پر بھی براجمان ہو کر اپنے مفادات کے حصول و نگہداشت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے ایک فاضل رکن پارلیمنٹ نے ان اشرافیہ طبقات کی مراعات و لوٹ مار کی تفصیلات کا اجمالی خاکہ اپنی تقریر میں پیش کیا تو باہمی مفاداتی طبقات نے اس تقریر کو زبانِ زدعام ہونے سے روکنے کیلئے سوشل میڈیا پر اس تقریر کی ویڈیو غائب کرانے کا اہتمام کرلیا۔ مگر بھلے لوگو! کیا عوام پہلے ہی اشرافیہ طبقات کے لوٹ مار کیلئے باہم گٹھ جوڑ سے آگاہ نہیں ہیں؟ انہیں اپنے قعرمزلت کی جانب لڑھکائے جانے کے ہر پس منظر اور ہر سازش کا یقیناً مکمل ادراک ہے اور آج وہ زچ ہوتے ہوتے اپنی بربادیوں کا حساب کتاب چکانے کیلئے عملاً تہیہ طوفان کئے بیٹھے ہیں۔ ان کا جوش اشک کچھ نہ کچھ کر گزرے گا۔
وزیراعظم میاں شہبازشریف اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں اشرافیہ طبقات کو جس خونیں انقلاب سے ڈرایا کرتے تھے‘ آج وہ وزارت عظمیٰ کی مسندِ جلیلہ پر بیٹھ کر چاہے سیاسی مصلحتوں کے تحت اس ڈراوے پر چادر ڈال چکے ہوں مگر حکمران اتحادیوں کی عام عوام کو ملیامیٹ کرنے والی پالیسیاں مجبورو مقہور اور زندہ درگور انسانوں کے جوش اشک کا رنگ جما کر رہیںگی۔ غضب خدا کا! اشرافیائوں کے وارے نیارے ہونیوالے حالات اور اللے تللوں پر طائرانہ نظر بھی ڈالیں تو اس دھرتی پر موجود قدرتی وسائل اور قومی دولت کی انکے حق میں تقسیم قدرت کی منشاء کو بھی زیربار کرتی نظر آتی ہے۔ یہ طبقات اقتدار کے ایوانوں میں ہی نہیں‘ عدل گستری‘ بیوروکریسی اور طاقت و اختیار کے دوسرے ایوانوں سمیت ہر جگہ اپنی دھاک بٹھائے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ انکی سرکاری مراعات و سہولتوں کی کوئی حد ہی نہیں اور حرص ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
ان طبقات نے ایک دوسرے کی بھائیوالی میں اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کیلئے بس فائدے ہی فائدے سمیٹے ہیں۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں خود وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ جم خانہ کلبوں اور اس طرز کی دوسری آسائش گاہوں کیلئے ہزاروں ایکڑ اراضی محض چند روپے فی ایکڑ کے عوض 99 سال کے پٹے پر دی گئی اور فی ایکڑ پٹے کے اب تک یہی نرخ چل رہے ہیں۔ یہ ساری آسائش گاہیں صرف حکمران اشرافیہ طبقات کیلئے مخصوص ہیں کیونکہ ’’قصرِ شاہی میں غریبوں کا بسر کیا معنی‘‘ ایسے ہی ہماری عدل گستری اور بیوروکریسی میں موجود بڑے گریڈوں اور مشاہروں والے اشرافیائوں کے وارے نیارے ہیں جن کے زیر استعمال لاکھوں سرکاری گاڑیاں سرکاری خزانے سے مفت پٹرول اور ڈرائیوروں کی دستیابی کی بے انتہاء سہولت کے ساتھ انہیں اور انکے خاندانوں کے بچے بچے کو فیض یاب کرتی ہیں۔ پھر انہیں سرکاری خزانے سے یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کی سہولت کے علاوہ بھی بے شمار مراعات حاصل ہیں۔ ان سب کا حساب کتاب کریں تو شاید آئی ایم ایف کے قرض جتنا چونا سرکاری قومی خزانے کو انکے ہاتھوں لگتا نظر آئے۔ انکی وسیع و عریض سرکاری اقامت گاہوں اور ان میں موجود سہولتوں کا جائزہ لیا جائے تو شاید مغل بادشاہ بھی اس زمانے میں آکر شرماتے نظر آئیں۔ اور پھر واپڈا کے ہزاروں ملازمین جس طرح مفت بجلی کی سہولت سے فیض یاب ہوتے ہیں‘ کیا یہ مراعات وہ اپنی وراثت میں سے لے کر آتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مشرف کے دور حکومت میں عدالتی حکم پر سپریم کورٹ میں ساڑھے چھ ہزار کے قریب اشرافیائوں کی فہرست پیش کی گئی جنہوں نے سرکاری بنکوں سے فیکٹریاں اور صنعتیں لگانے کے چکمے میں اربوں روپے کے قرض حاصل کئے اور کاروبار میں خسارہ ظاہر کرکے یہ قرض یکسر معاف کرالئے۔ فی الحقیقت یہ کاروبار محض کاغذوں میں کیا جاتا رہا۔ اس ملک خداداد کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایسے کاغذی کاروبار آج بھی پورے دھڑلے سے چل سے چل رہے ہیںکیونکہ سارے اقتداری بھائیوالوں نے اپنے مفادات کی نگہداشت کیلئے ایکا کر رکھا ہے۔ تو جناب! آپ آئی ایم ایف کے قرض کے حقیر ٹکڑوں کیلئے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ ملکی تشخص اور قومی غیرت کو بٹہ لگا رہے ہیں اور آئی ایم ایف پھر بھی غرّا رہا ہے اور عوام کی پپڑیوںجمی نحیف پشتوں پر مہنگائی کے کوڑے برسانے کیلئے آپ کو مجبور کرتا جارہا ہے۔ آپ ذرا اس کا ہاتھ جھٹک کر ملک کے سارے اشرافیائوں سے انکی اب تک کی لوٹ مار کا حساب کتاب کرلیں‘ اس ملک کے‘ عوام کے اور آپ کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔ جناب بسم اللہ کریں اور سرخرو ہو جائیں‘ ورنہ جو ہونا ہے‘ وہ نوشتہ دیوار ہے۔
آئی ایم ایف سے نجات کا مجرب نسخہ
May 10, 2023