بے زبان جانوروں کی دیکھ بھال

May 10, 2024

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
اسلام دین فطرت ہے، اس کا پیغام امن و آشتی اور محبت کا پیغام ہے، اور اللہ کی رحمت صرف انسانوں تک محدود نہیں، ہر ذی روح تک محیط ہے۔ اس کے فیوض و برکات نے جہاں عالم انسانیت کو سیراب کیا، وہیں بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمتِ بے کراں سے مالامال کیا ہے۔ زمانہ ء جاہلیت میں اہل عرب جانوروں کے ساتھ نہایت وحشیانہ سلوک کرتے تھے۔اسلام نے ان بے زبان جانوروں کو بھی حقوق دیئے۔ اسلام نے ان کے حقوق متعین کرکے رہتی دنیا تک انہیں تحفظ فرما دیا اور ان سے بدسلوکی کرنے والوں کو دوزخ کے عذاب کی وعید سنائی۔ جانوروں کی اہمیت اور ان کی خصوصیات بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے دو سو آیات میں جانوروں کا ذکر فرمایا ہے،نبی کریم ؐ کی تعلیمات میں تمام مخلوقات کے لیے جو محبت و رحمت کا پیغام ہے، وہ کسی اور کی تعلیمات میں نہیں ملتا۔ افسوس کہ دشمنان اسلام نے اسلام کو سفاکیت و ظلم کی شبیہ سے تشبیہ دی اور ہمارے سادہ لوح مسلمان ان کے اس فریب کا شکار ہوگئے۔ ایسے وقت میں اس بات کی شدید ضرورت ہے، رسول اکرم ؐ کی ان مبارک تعلیمات سے امت کو آگاہ کیا جائے، جو سرتا پا رحمت ہی رحمت ہیں، تاکہ امت کو یہ احساس ہو سکے کہ ان کا رشتہ اْس رحمۃ للعالمین ؐ سے ہے، جن کی رحمت کا تعلق فقط انسان تک ہی محدود نہیں، بلکہ ان کے دامن رحمت کی وسعتیں تمام مخلوقات کو اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔
ہشامؒ کہتے ہیں میں حضرت انسؓ کے ہمراہ حکم بن ایوب ؒ کے پاس آیا۔ انہوں نے نوجوانوں کو دیکھا کہ ایک مرغی کو باندھ کر مار رہے تھے۔ حضرت انسؓ نے فرمایا نبی کریم ؐ نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے روکا ہے (صحیح بخاری) حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ؐ کے قریب سے ایک ایسا گدھا گزرا، جس کے منہ کو آگ سے داغا گیا تھا، آپ ؐ نے اس گدھے کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والے پر لعنت فرمائی(صحیح مسلم)حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ایک عورت کو بلی باندھ کر رکھنے کی وجہ سے عذاب دیا گیا، کیونکہ اس عورت نے نہ تو اسے کچھ کھلایا، نہ پلایا اور نہ ہی اسے آزاد کیا کہ وہ کچھ کھا پی لیتی (صحیح مسلم)
حضرت شداد بن اوسؓ سے مروی ہے کہ مجھے وہ دو باتیں ابھی تک خوب یاد ہیں جو میں نے رسول اللہ ؐ سے سنی تھیں: اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے میں احسان کو لازمی قرار دیا ہے، جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور اپنی چھری کو تیز کر لیا کرو، تاکہ اس کی وجہ سے ذبح ہونے والا جانور راحت پا سکے۔(صحیح مسلم)حضرت سہل بن حنظلیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ کا گزر ایسے اونٹ کے قریب سے ہوا جس کی کمر اس کے پیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی (یعنی بھوک کی وجہ سے بہت دبلا ہو چکا تھا) آپ ؐ نے فرمایا کہ ان بے زبان جانوروں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو! انہیں اچھے طریقے سے سواری بناؤ اور انہیں کھلاؤ تو اچھے طریقے سے کھلاؤ (سنن ابو داؤد)حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ سے مروی ہے کہ آپ ؐ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے، وہاں ایک اونٹ نے جب آپؐ کو دیکھا تو رونا شروع کر دیا۔نبی کریم ؐ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے آنسو پونچھے، اس نے رونا بند کر دیا۔ آپ نے پوچھا کہ اس کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نے آ کر عرض کیا کہ یہ میرا اونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا:آپ ان کے بارے اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے؟ اس نے تمہیں ان کا مالک بنایا ہے۔ اونٹ نے مجھے آپ کی یہ شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور بھوکا رکھتے ہو(سنن ابو داؤد)حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ایک شخص کہیں چلا جا رہا تھا کہ اسے پیاس نے بے تاب کر دیا، چنانچہ وہ کنویں میں اترا اور پانی پی لیا۔ اس کے بعد جب وہ کنویں سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپ رہا تھا اور شدت پیاس سے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے خود سے کہا کہ اس کتے کو بھی میری ہی طرح پیاس لگی ہے، چنانچہ وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھر لایا اور کتے کے سامنے رکھا، کتے نے پانی پیا اس کی جان میں جان آ گئی۔ اس وجہ سے اللہ رب العزت نے اس بندے کی قدردانی فرمائی اور اس کی مغفرت کر دی۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ یارسول اللہؐ! کیا ہمیں جانوروں سے اچھا سلوک کرنے پر بھی اجر ملے گا؟ تو آپ ؐ نے فرمایا: ذی روح کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر اجر ہے (سنن ابو دؤد)ایک دفعہ صحابہ کرام ؓنے نبی کریم ؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہؐ! کیا جانوروں (کی تکلیف دور کرنے) میں بھی ہمارے لئے اجر و ثواب ہے؟۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں، ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے (صحیح بخاری: 5009 صحیح مسلم: 2244)

مزیدخبریں