پشاور(نوائے وقت رپورٹ) جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے ہمیں ’دھاندلی‘ کیخلاف تحریک روکنے اور اس کے عوض پیش کش کی جارہی ہے لیکن ہمارا مینڈیٹ عوام کے پاس ہے اور اب ہم دھمکیوں پر خاموش نہیں رہیں گے بلکہ جیلوں میں جانے تک کے لیے تیار ہیں۔ پشاور میں جے یو آئی کے جلسہ ’عوامی اسمبلی‘ سے خطاب کرتے ہوئے فضل الرحمان نے کہا قبائلی علاقوں میں جب آپریشن شروع کیا گیا تو میں نے سب سے پہلے مخالفت کی تھی، اگر آپریشن کامیاب ہوا تو پھر دہشت گرد اور عوام غیر محفوظ کیوں ہیں۔ فضل الرحمان نے کہا کہ اب سکیورٹی فورسز کو قبائلی علاقوں سے چلے جانا چاہیے۔ جب فاٹا انضمام کا فیصلہ ہوا تو میں نے دلائل سے اسے غلط ثابت کیا، پھر مخالفت کرنے پر ایک امریکی افسر میرے گھر آیا اور اْس نے وجہ پوچھی، میرا گناہ یہ تھا قبائلی انضمام کی مخالفت کی میں تمھارے آقائوں کا فیصلہ نہیں مانا، آج پوچھنا چاہتا ہوں فاٹا کے عوام کہاں کھڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قبائلی انضمام کے وقت دس سال میں ایک ہزار ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا مگر سو ارب روپے بھی پورے نہیں دیے گئے، بیرونی اشاروں پر خود مختاری کو بیچا گیا جبکہ میں نے اس وقت کہا تھا قبائلی عوام کی رائے کے لیے ریفرنڈم کرائیں، مجھے آج بھی وہ الفاظ یاد ہیں جو قبائلی کے بارے میں کہے گئے، وقت نے ثابت کیا میری رائے غلط نہیں تھی۔فضل الرحمان نے کہا ریکوڈک بلوچوں کی ملکیت ہے لیکن اس میں قانون سازی کرکے انھیں حق نہیں دیا گیا، ان سارے منصوبوں کی مخالفت کرنے پر مجھے راستے سے ہٹایا گیا مگر یاد رکھیں کہ ہم بلاوجہ مخالفت نہیں کرتے ہیں، آپ سیاست میں سے مداخلت ختم کر کے واپس اپنی ذمہ داریاں انجام دیں گے تو میں کچھ نہیں کہوں گا۔ ہم جانتے ہیں فوج ریاست کی محافظ ہے کیونکہ اْس نے سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھایا ہے ۔ انہوں نے کہا ان علاقوں میں پاکستان کا جھنڈا کسی اور نے نہیں ہم نے لہرایا لہذا ہم پر رعب ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے، معاملات کو ٹھیک کریں ۔انہوں نے خبردار کیا ختم نبوت کی ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے، 7 ستمبر 2024 کو ختم نبوت قانون کو پچاس سال پورے ہورہے ہیں مینار پاکستان پر گولڈن جوبلی منائیں گے۔انہوں نے اعلان کیا کہ یکم جون کو مظفر گڑھ میں عوامی مارچ کریں گے، 8 فروری کے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہیں، دھمکیاں دیکر ہمیں خاموش نہیں کرسکتے ہم آپ کو خاموش کرنے آئے ہیں، ہمیں قومی اسمبلی سمیت چاروں اسمبلیاں قبول نہیں ہیں۔