یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ہر راستہ زراعت سے ہو کر گزرتا ہے کیونکہ ہماری آبادی کا تقریباً65فیصد حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے جس کا پیشہ کاشتکاری اور مویشی پالنا ہے زراعت کا GDPمیں حصہ 24فیصد جبکہ ہماری برآمدات کا 60سے 65 فیصدبراہ راست یا بلواسطہ زراعت کا مرہونِ منت ہے زراعت کا شعبہ اس وقت کل ملازمتوں کا 40 سے 45فیصد روزگار بھی دے رہا ہے زرعی شعبے کی اس قدر اہمیت کے باوجود اسے ہر حکومت نے نظر انداز کیا جس کی وجہ سے ہماری زراعت اور کسان دونوں بدحال ہو چکے ہیں ہمارے زرعی سائنس دا ن اور ماہرین زیادہ پیداوار دینے والے اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والے مختلف فصلوں کے بیج تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں محکمہ زراعت کا فیلڈسٹاف تو کھیتوں میں کاشتکاروں کی رہنمائی کرنے کے بجائے "دفتری بابو" بن چکا ہے زرعی تحقیق کے اداروں کو ہمیشہ فنڈز کی کمی رہتی ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔کہ اس وقت پارلیمنٹ کے زیادہ تر ممبران کا تعلق دیہی علاقوں سے ہی ہے لیکن وہ ایوانوں میں جا کر اپنے ووٹروں یعنی کاشتکاروں کے مسائل کو بھول جاتے ہیں ہمارے کاشتکاروں کو معیاری بیج ، ملاوٹ سے پاک کھاد اور زرعی ادویات کے حصول میں بے پناہ مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے دوسری طرف آبپاشی کے لیے پانی کی کمی اور مہنگے زرعی آلات ہونے کی وجہ سے کسان وقت پر فصلیں کاشت نہیں کرسکتا، اس کے علاوہ زرعی مداخل کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ بجلی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے کسانوں کے پیداواری اخراجات ، میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے اس کے منفی اثرات ہماری مجموعی زرعی پیداوار میں کمی کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔دوسری طرف ہماری "ہر دور کی حکومت "یہ ڈائیلاگ ہی بولتی ہے کہ زراعت ہماری معیشت کی "ریڑھ کی ہڈی"ہے لیکن حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے حقیقتاً یہ "ریڑھ کی ہڈی" اب ٹوٹ چکی ہے آپ زرخیز زرعی زمینوں پر ــــ"دھڑا دھڑ"تعمیر ہونے والی رہائیشی سکیموں کو دیکھ لیں یا پھر 16ویںصدی میں زندگی گزارنے والے کسان کی حالت زار کو دیکھ لیں جو "زندگی کی بنیادی سہولتوں "کا صرف"خواب "ہی دیکھ سکتا ہے حیران کن امر یہ ہے کہ نگران حکومت نے نہ جانے کیوں پاکستان کی زراعت اور کسان کی تباہی اور یہاں غذائی بحران پیدا کرنے کے لیے ایک ارب ڈالرکی گندم اُس وقت درآمد کی جب گندم کی نئی فصل آنے کو چند ماہ رہ گئے تھے اور ملک میں گندم کے وافر سٹاک بھی موجود تھے اس درآمد کے پسِ پردہ محرکات کیا تھے کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی رہتا حاجی محمد رمضان نے یہ انکشاف کیا ہے کہ یہ غیر ملکی گندم ہمیں 5000 روپے فی من سے بھی مہنگی پڑی ہے جبکہ اس کی کوالٹی پاکستان کی
گندم سے کہیں کم ہے انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت اپنے کسان سے اس قیمت پر گندم خرید کرے گی؟ کسان رہنما نے چیف جسٹس
-2-
آف پاکستان سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ وہ گندم کی غیر ضروری اور مہنگے داموں خریداری کا از خود نوٹس لیں اور ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کے اس مد میں بے جا استعمال اور مالی منفعت حاصل کرنے والے یعنی"دیہاڑی لگانے "والوں کے خلاف سخت ترین کاروائی کریں۔ نگران حکومت کے اس غلط فیصلے کی وجہ سے آج گندم 2500/-روپے فی من سے زیادہ پر خرید نے کو بھی کوئی تیار نہیں جبکہ موجودہ حکومت اسے سرکاری قیمت یعنی 3900روپے فی 40کلو گرام خرید کرنے کے سہانے خواب دکھا رہی ہے یہ درد ناک حقیقت ہے کہ پولیس نے نہتے اور غریب کسانوں کو جو گندم کی خریداری نہ کرنے پر پر امن احتجاج کر رہے تھے زبر دست تشدد کا نشانہ بنا یا اور ا نہیں گرفتار بھی کیا جس پر حکومت ، وزراء اور سیاست دان سب "چُپ سادھے" ہوئیہیں کوئی بھی مصیبت کے مارے کسانوں کی مدد کرنے اور ان کے لیے آواز اُٹھانے کو تیار نہیں حکومت یہ بات اپنے پلے باندھ لے کہ اگر کسان کو اسکی گندم کا پورا معاوضہ نہ مِلا تو کپاس کی کاشت کا ٹار گٹ کبھی بھی حاصل نہ ہوگا جس سے ہماری جیننگ فیکٹریاں اور ٹیکسائل ملوں کا پہیہ بھی نہیں چل سکے گا اور ہماری ملکی زراعت اور کسان کا مزید" بھٹہ بیٹھ" جائے گا۔ کیا حکومت اس آنے والی تباہی کو روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کچھ کر ے گی۔؟
یہ بات تشویش ناک ہے کہ نگران دور حکومت میں 27لاکھ 58ہزار 226میڑک ٹن گندم در آمد کی گئی جبکہ نئی حکومت نے بھی مارچ 2024ء میں 57ارب روپے سے زائد کی گندم درآمد کی۔ عوام اور کسانوں کا ایک ہی سوال ہے کہ ملک میں گندم کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود اس کی درآمد کیوں کی گئی ؟ سستی گندم خرید کر مہنگی گندم فروخت کرنے کے ذمہ دار کون ہیں ؟ گندم کی نئی فصل کی خریداری میں جان بوجھ کر تاخیر کس کے اشارے پر ہورہی ہے ؟ کسان کو زرعی اور مالیاتی بحران میں مبتلا کر کے زرعی شعبے کی تباہی کے "کریکٹر ایکٹر"کون ہیں ؟عوام اور کسان کو ان سوالات کے جوابات چاہیں اور تباہی کے ذمہ داروں کا اکڑا احتساب بھی۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے یہ کہ حکومت سمیت تمام صنعتی و تجارتی انجمنیں ، ایف بی آر اور میڈیا بھی زراعت کے پیچھے "ہاتھ دھو"کر پڑے ہوئے ہیں کہ "زراعت پر ٹیکس لگاؤ ۔ حیران کن امر یہ ہے کہ زرعی شعبہ اورہمارا کاشتکار ہر ایک سطح پر ٹیکس دیتا ہے مثلاً بیج ، کھاد، زرعی ادویات ، زرعی مشینری ، ٹیوب ویل، ٹریکٹر، آبپاشی کے لیے پانی ڈیزل،و پٹرول ہر زرعی مداخل کی خریداری پر ٹیکس ، مالیہ آبیانہ اور مارکیٹ کمیٹی فیس کی ادائیگیاں کے علاوہ پٹواری تھانیدار، سیاستدانوں کو جگا ٹیکس اور ان کی "ویگار"بھی کرنی پڑتی ہے اس بات کو سب جانتے ہیں کہ صدرِ وزیرِ اعظم اور وزراء کے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے انہی کسانوں کو بھیڑبکریوں کی طرح زبردستی لاد کر اور وہ بھی کسانوں کے اپنے ٹریکٹروں اور خرچے پر لایا جاتاہے جہان وہ سارا دِن بھوکے پیاسے بیٹھے رہتے ہیں کیونکہ یہ غریب کاشتکار بے بس اور مجبور ہوتے ہیں ۔ دکھ بھری حقیقت یہ کہ حکومت، سیاستدانوں اور میڈیا نے کبھی دیہی عوام کو انسان ہی نہیں سمجھااور انہیں غربت کے مارے کسانوں کی حالت
زار کا "رتی بھر بھی احساس نہیں"ہے اسی لیے یہ سب مصیبتیں ، تکلیفیں اور آزمائیشیں صرف کسانوں کا مقدر بن چکی ہیں۔ اگر کاشتکار کی فی ایکٹر پیداوار کم ہو تو اس کے پیداواری اخراجات پورے نہیں ہوتے اگر پیداوار زیادہ ہو جائے تو اُسے نہ تو خریدار ملتا ہے اور نہ ہی مناسب پیسے ،
-3-
وہ جائے تو جائے کہاں" جبکہ زرعی بنک کا عملہ اور آڑھتی اپنے پیشگی ادا کردہ قرضوں کی وصولی کے لیے کسانوں کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں ۔اور وہ اُن سے "بچتا بچاتا"چھپتا چھپاتا"پھرتا ہے کیونکہ اگر وہ پکڑا گیا تو پھر یقینا"سلاخوں کے پیچھے"ہی ہوگا ایسی صورت میں اس کا کوئی پر سان حال نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر جگہ پر "رگڑا"کسان کو ہی لگتا ہے افسوس اور دکھ کی بات یہ کہ ہر سطح پر ٹیکس دینے کے باوجود بھی زرعت اور کسان کو ٹیکس نہ دینے کے طعنے دئیے جاتے ہیں اور بے بنیاد پر اپیگنڈا کر کے اور آئی ایم ایف معاہدے کی آڑ میں زراعت کے
گرد"شکنجہ کسنے"کی تیاریاں ہو رہی ہیں اگر ایسا ہوگیا تو اللہ نہ کرے ہماری "رہی سہی زراعت "کا بھی "بٹھہ بیٹھ "جائے گا۔ حکومت اب دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ کسان دوست ، زرعی ترقیاتی بینک کی نجکاری بھی کررہی ہے اس سے ہمارے زراعت اور کسان دونوں کا مزید" بھٹہ بیٹھ جائے گا ا ور پھر غذائی بحران کو آنے سے کوئی نہیں رو ک سکتا۔ پاکستان بھر کی کسان تنظیموں نے زرعی ترقیاتی بینک کی نجکاری کرنے کی پُر زور مذمت کی ہے۔ ہمارے یہ"دانشور" بھول جاتے ہیں یہ کسان ہی ہے جو محدود مالی وسائل کے باوجود بھی دن رات کام کر کے 25کروڑ عوام کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور ملک کے صنعتی اور تجارتی شعبے کے پہییے کو چلانے میں کوشاں رہتا ہے حیران کن بات یہ کہ سوشل ، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ صنعتکار، سرمایہ کار، تاجر اور ان کی انجمنیں آج کے کسان کو ماضی کے ڈراموں کے جاگیر دار اور وڈیرے سمجھ رہی ہیں حالانکہ سرکاری اعددادوشمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً90فیصد سے زائد کسانوں کے پاس ایک ایکڑ سے ساڑھے بارہ ایکڑ کے لگ بھگ زرعی اراضی ہے جبکہ ان کُل تعداد 7.4ملین بنتی ہے ۔ کیا ہم آئی ایم ایف کے حکم پر ان چھوٹے کاشتکاروں کا گلا گھوٹیں گے؟حقیقت ہے کہ ریکارڈ مہنگائی کے اس دور میں کاشتکاری اب سراسر"گھاٹے کا سودا"ہے لہٰذا اس پر ٹیکس لگانے کا کوئی سوچے بھی نہ بلکہ وہ لینڈمافیا جس نے زرخیز زمینوں کو "اجاڑ"کر رہائشی سکیمیں بنا کر اپنی تجوریاں" بھری ہیں ان پر ٹیکس اور جرمانے عائد کیے جائیں اس کے ساتھ ساتھ وہ میونسپل ادارے جو محض اپنی آمدنی بڑھانے کے "چکروں "میں سونا اگلتی زمینوں پر رہائشی سکیمیں بنانے کی منظوری دیتے ہیں ان کے خلاف بھی سخت قانونی کاروئی کے جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت زراعت پر کسی قسم کا مزید ٹیکس قطعاً نہ لگائے بلکہ کاشتکاروں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دے ۔ یہ بات حکومت جان لے کہ "زرعی خود کفالت کا خواب"اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک حکومت کسانوں کے تمام مسائل کو حل نہیں کرتی اور اسے ریلیف نہیں دیتی۔کسان بورڈ پاکستان کا یہ مطالبہ با لکل درست ہے کہ زرعی شعبے اور کسان کو بچانے کے لیے آرمی چیف، وزیرِ اعظم اور چیف جسٹس پاکستان خصوصی نوٹس میں تاکہ ملک میں حقیقی معنوں میں زرعی انقلاب لایا جاسکے۔