قارئین کرام ! انہی سطور میں کچھ عرصہ پہلے قبرستان بچاؤ تحریک کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا تھا اس حوالے سے آج دوبارہ یہ کالم قارئین کرام کی نذر ہے۔اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے پاکستان میں ستانوے فیصد سے زیادہ لوگ مسلمان آباد ہیں اسلام کا نظام قرآن وحدیث عقائد اور عبادات کا مجموعہ ہے عقائد میں بہت سی باتوں کو ماننے اور یقین کانام ہے دنیا فانی ہے ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ وہ ایک حساب وکتاب کے عمل سے گزر کر جنت میں داخل ہوگا مرنے کے بعد انسان کا پہلا قدم وہ خاک ہے جو اس کو نصیب ہوتی ہے اور خاکی انسان پھر خاک کا حصہ بن جاتا ہے مسلمان ہونے کے ناطے ہماری دنیاوی اعمال کی پوچھ گچھ قبر سے ہی شروع ہو جاتی ہے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں دنیا کے کئی مقامات پر قبرستان ہیں پشاورمیں بے تحاشا آبادی میںاضافہ کی وجہ سے قبرستانوں میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر افسوس ہوتا ہے کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر قائم ہوپاکستان میں قبرستانوں کی حالت زار بہت خستہ ہے بلکہ پوری دنیامیں سب سے زیادہ پیچیدہ صورتحال بنی جارہی ہے۔میں یہاں ذکر کرونگا پشاور کے جدید ترین پوش علاقے حیات آباد فیز 7کے قبرستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ڈیڑھ لاکھ آبادی والا پوش علاقہ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے کروڑوں روپے کی آمدن کے باوجود حیات آباد گوں نا گوں مسائل کا شکار ہے۔ حیات آباد کو مزید ترقی دینے کی بجائے یہاں کے عوام کا جمع کردہ فنڈ دوسرے علاقوں کو منتقل کیا جا رہا ہے۔موجودہ صوبائی حکومت اور سابق حکومت نے حیات آباد کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔صوبائی حکومت نے حیات آباد کے کمرشل پلاٹ جس میں بی آر ٹی نے مال آف حیات آباد بنایا ہے اس اراضی کی قیمت7ارب روپے ہے فوری طورپر سات ارب روپے کی دائیگی کی جائے کیونکہ یہ کمرشل پلاٹ حیات آباد کے باشندوں کی ملکیت ہے۔پی ڈی اے سیلف فنانس ادارہ ہے 1978میں حیات آباد ٹاؤن کے نام سے صوبے کی پہلی جدید بستی کی قرعہ اندازی کی گئی اور حیات آباد کے شہریوں سے پلاٹ کی قیمت میں ڈیولپمنٹ چارجز کی مد میں رقوم وصول کیں جس پر سڑکیں ، پارک ، تجارتی مراکز، سکول کے علاوہ بجلی ، سوئی گیس اور ٹیلی فون کی سہولیات دی تھیںپورے حیات آباد کی دیکھ بھال اس رقم سے کی گئی پی ڈی اے کی رقم حیات آباد سے باہر خرچ نہیں کی جاتی ہے لیکن افسوس کہ سابق حکومتوں نے اپنی کرسی بچانے کے لئے ایک ایک کنال کا پلاٹ ممبران اسمبلی کو دیاجبکہ شہر کے جدید ترین پوش علاقے حیات آبادفیز 7 میں قبرستان ختم ہونے لگا ہے حیات آباد کے لئے نیا قبرستان دیا جائے حیات آباد میں موجودہ قبرستان پر پولیس نے قبضہ کیا ہوا ہے۔10 سالوں سے پی ڈی اے اور حکومت نے پولیس سے قبرستان کا ناجائز قبضہ ختم نہیں کرایا محکمہ پولیس نے پی ڈی اے سے سال2008-10میں تین کنال اٹھارہ مرلے زمین خریدی تھی جس میں اب بھی زیادہ رقم ادا نہیں کی گئی ہے اور اس کی پو زیشن کے بغیر اس میں بلڈنگ بنائی ہے جو پولیس ٹریننگ سینٹر ہے لیکن پولیس نے تین کنال اٹھارہ مرلے کے بجائے 20سے25کنال زمین پر قبضہ کیا ہے اب قبرستان میں جگہ نہیں ہے اگر یہی حال رہاتوحیات آباد کے شہری بہت جلد اس پر مجبور ہو جائینگے کہ کئی سیکٹروں کی گرین بیلٹ پارکوں میں اپنے پیاروں کو دفن کرینگے۔پشاور کے پوش علاقے حیات آباد میں قبرستان کی زمین کم پڑنے لگی مقامی لوگوں کی میتوںکی تدفین کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے حیات آباد کے رہائشیوں نے قبرستان کے لئے مزید زمین کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے اور بلدیاتی نمائندوں سمیت پی ڈی اے اور میئر پشاور سے اس حوالے سے عملی اقدامات اٹھا نے کا بھی مطالبہ کیا ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے جو زمین مہیا کی گئی ہے وہ آبادی کے تناسب سے کم ہونے لگی ہیں۔ بارشوں کے باعث قبریں گرنے کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں اور دیوارجگہ جگہ حالیہ بارشوں میں گر گئی ہے۔قبرستان غیر محفوظ ہو چکا ہے اور کسی بھی طوفانی بارش کے دوران یہ قبریں پانی بہا کر لے جائے گا۔جیسا کہ حالیہ دنوں میں مسلسل تیز طوفانی بارشوں کی وجہ سے حیات آبادفیز 7کے قبرستان کی کافی نئی قبریںجو کہ سنگ مر مر کی بنی ہوئی تھیں اور ہر قبر پر 50ہزار روپے کا خرچ ہوا تھا۔ تیز پانی کے بہاؤ کی وجہ سے خراب ہو گئیں تھیںاور اس کے ساتھ ساتھ خوڑ میں بھی کافی پانی جمع ہو گیا تھا جو کے قبروں کو مزید خراب کر رہا تھا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حیات آباد فیز 2زرغنی مسجدکے سامنے جوخوڑ ہے اس کے ساتھ ساتھ جو رہائشی مکانات بنے ہوئے ہیں وہاں تک تو خوڑ میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے پختہ دیوار تعمیر کی ہوئی ہے جبکہ جہاں رہائشی مکانات ختم ہو جاتے ہیں اور فیز7کاقبرستان شروع ہو جاتا ہے وہاں پرکوئی دیوار نہیں ہے جس کی وجہ سے خوڑ کا سیلابی پانی قبرستان کو نقصان پہنچا رہا ہے۔لہٰذا وہاں پر بھی پختہ دیوار تعمیر کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی حیا ت آباد فیز 6کے قریب گندھاؤ خوڑ کے پار جو اراضی پڑی ہوئی ہے وہاں نیا قبرستان تعمیر کیا جائے اور قبرستان کو محفوظ بنانے کے لیے چاردیواری بھی تعمیر کی جائے کیونکہ فیز7کا قبرستان زمین کی کمی کے باعث ختم ہو گیا ہے۔ڈائریکٹر جنرل پی ڈی اے فوری طور پر اپناکردار ادا کرتے ہوئے فیز6کے قبرستان کے لئے خریدی گئی زمین الاٹ کرے اورفیز7کے قبرستان میں پولیس کا ناجائزقبضہ ختم کرے۔سابق آئی جی پی خیبرپختونخوا نا صر ڈرانی(مرحوم)کے زمانے میں 5کنال کا پلاٹ جو کہ حیات آباد قبرستان کے لئے مختص تھا۔ ایک جناز گاہ، ایک جامع مسجد کے علاوہ 50سے زائد قبروں پربھی ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور ایک پولیس ٹریننگ سنٹر بھی قائم کیا ہوا ہے۔قبرستان میں کافی تعداد میں درخت اور پودے بھی تھے پولیس نے درخت اور پودے بھی کاٹ دیئے ہیں۔نئے قبرسان میں ایک سائز کی قبریں ہونی چاہیے اور ایک لائن میں ہونی چاہیے تاکہ آنے جانے والے لوگوں کو تکلیف نہ ہو جیسا کہ اسلام آباد کے قبرستان میں ان سہولتوں کے ساتھ ساتھ ہر قبر کا اپنا نمبر بھی الاٹ کیا جاتا ہے جو کہ باقاعدہ رجسٹر میں درج ہوتا ہے جوقبرستان آنے والے لواحقین کے لئے آسانی کا باعث بنتا ہے۔وطن پاکستان میں دیہات ہوں یا شہر قبرستان میں قبروں کی حالت انتہائی خستہ ہے اکثر قبرستا نوں میں صوفیاء اور اولیاء کے مزار بھی ہیں ایک تو ہمارے ملک میں قبرستانوںکی کوئی ترتیب وار منصوبہ بندی نہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے پشاور کے قبرستان غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں اور قبضہ مافیا پشاور کے قبرستانوں میں سے قبروں کو مٹا کر اس جگہ پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔