جہاں ملکی معیشت کی تباہی کے سبب ہر شہری پریشان دکھائی دیتا ہے اور معیشت کا چیلنج ہمارے اداروں کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ وہاں سیاست او معیشت کے عالمی میدان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ناآشنائی اور عدم واقفیت نے ہم سب کو ایک کنفیوڑن میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جس کے سبب ہم اپنی معیشت کی بہتری کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھانے سے بھی قاصر ہیں۔ قرض کی مے سے آخر کب تک کام چلے گا۔ اگر صورت حال یونہی برقرار رہی تو فاقہ مستی زندگی میں کوئی رنگ بھرنے کی بجائے ہماری زندگی کو مزید بے رنگ کر دے گی۔
معیشت کی اس ابتر صورتحال میں ضروری ہو گیا ہے کہ عالمی سیاست و معیشت کے میدان میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں اور نئے رجحانات کا بغور جائزہ لیا جائے اور قومی سلامتی کے تناظر میں جرات مندانہ فیصلے کئے جائیں۔ تلخ حقائق سے کسی بھی طرح پہلوتہی نہیں برتی جا سکتی۔ معیشت کے میدان میں آج کی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ 2010ء کے بعد چین کی معیشت جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔
امریکہ جس وقت افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کی جنگ میں مصروف کار رہا عین اسی وقت چین عالمی تضادات سے خود کو بچاتے ہوئے اپنی معیشت کو بہتر کر رہا تھا اور آہستہ آہستہ وہ دنیا کی کنزیومر مارکیٹ میں اپنے قدم جما رہا تھا۔ معاشی اعتبار سے 2024ء کا چین سال 2000ء کے چین سے بہت آگے جا چکا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح سیاسی اعتبار سے سال 2000ء کا امریکہ 2024ء سے بالکل مختلف دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد 1990ء میں ہمیں جس یونی پولر ورلڈ کا سامنا تھا۔ سال 2010ء کے بعد ہماری دنیا یونی پولر ورلڈ سے نکل کر ملٹی پولر ورلڈ کی طرف سرکتی دکھائی دیتی ہے۔ مستقبل کی ملٹی پولر ورلڈ میں ایشیائی ممالک خصوصی اہمیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔
عالمی شماریاتی اداروں کی ایک ریسرچ کے مطابق 2050ء تک ایشیائی ممالک کی معیشت یورپ امریکہ سے بھی آگے نکل جائیگی جس میں چین لیڈنگ رول ادا کر رہا ہو گا چین عالمی معیشت میں پہلے نمبر پر آ جائیگا جبکہ امریکہ دوسرے نمبر پر چلا جائے گا جس کے بعد جاپان جرمنی، برطانیہ اور فرانس کا نمبر آئے گا۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ مغربی دنیا کی قومی پیداوار 35% تک رہ جائیگی جبکہ ترقی پذیر ملکوں کی معیشت ورلڈ GDP میں 65% تک بڑھ جائیگی اسی طرح 16 ایشیائی ممالک جن میں بھارت، جاپان، انڈونیشیا، کوریا، ترکی، ویتنام، فلپائن، ایران اور بنگلہ دیش شامل ہیں وہ ایشیاء کی معیشت میں انتہائی اہم حیثیت اختیار کر جائیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بدلتی معیشت کی دنیا میں امریکی معیشت نمبر ون سے نیچے جانے کے بعد پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟ ہمیں جو سیاسی و معاشی چیلنجز درپیش ہیں ان سے کیسے نپٹا جا سکے گا؟ جس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہمیں بھی ایشیاء کی معیشت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے شنگھائی گروپ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جس کی طرف ترکی ، بنگلہ دیش حتیٰ کہ سری لنکا اور میانمیر بھی اپنا رخ موڑ چکے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے طاقت کا توازن جو 19 ویں صدی کے آغاز سے تاج برطانیہ کے حق میں رہا اور 20 ویں صدی میں امریکہ کے پاس چلا گیا جس کا مظہر پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں نظر آتا ہے۔ یہ اپنے 100 سال کے مکمل امریکی عروج کے بعد ایشیاء کے ملکوں کی طرف سرکتا دکھائی دے رہا ہے۔ 1950ء کی دہائی میں مغربی ممالک کی آبادی دنیا کی آبادی کا 30% تھی جبکہ ورلڈ جی ڈی پی میں اس کا حصہ 80% تھا۔ سال 2004ء میں دنیا کی تجارت کا سب سے بڑا پارٹنر امریکہ تھا تاہم 2020ء کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جس میں دنیا کے ساتھ تجارت کرنے والے ملکوں میں سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر چین دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ جرمنی، سپین، اٹلی، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ٹریڈ پارٹنر ملتے ہیں۔ یوں چین تجارتی اعتبار سے جرمنی اور جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
چین کی موجودہ تیز رفتار معاشی ترقی کو دیکھتے ہوئے باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ سال 2030ء کے اختتام تک چین کی معیشت امریکی معیشت سے آگے نکل جائیگی جبکہ دوسری طرف امریکی معیشت تین ہزار ارب امریکی ڈالر کی مقروض ہے۔
موجودہ معاشی صورتحال اور تلخ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ کئی دہائیوں پر مشتمل پاک چین دوستی کو مضبوط معاشی بندھن میں باندھا جائے۔ چین غذائی اعتبار سے بڑی مقدار میں غذا درآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے جبکہ پاکستان غذائی اجناس برآمد کر کے اپنی معیشت کو بہتر کر سکتا ہے۔ اس وقت سی پیک کے ذریعے چین کی منڈی تک باآسانی رسائی ممکن ہو چکی ہے۔ اگرچہ پاکستان چین کا پہلے ہی سے بڑا ٹریڈ پارٹنر ہے۔ تاہم اس پارٹنر شپ کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
پاک چین دوستی اور ہماری معیشت
May 10, 2024