9مئی سے 9مئی تک

کسی بھی ریاست، سلطنت یا ملک کی سرحد یں اس کا تحفظ کرنے والوں کے خون سے ہی محفوظ قرا ر پاتی ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ ملک سلامت ہے تو اس کے عوام اور اقتدار کے ایوان بھی سلامت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ہر قوم اپنے شہداء کی قربانیوں کو ہمہ وقت یاد رکھنے اور آنے والی نسلوں کو ان کے جذبہ شہادت سے آگاہ کرنے کیلئے شہدا کے مجسمے یا ان کی یادگار یں تعمیر کرتی ہیں۔ ان یادگاروں کے ساتھ شہدا کے ان کارہانے نمایاں کو تحریری صورت میں نقش کیا جاتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنی جان وطن پر نچھاور کرگئے۔ زندہ قومیں اپنے شہدا کی یادگاروں کو اپنی شان اور ملک کی شناخت سمجھ کر اس پر پھول نچھاور کرتی ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے شہدا کی تکریم تو دور کی بات ہے ' ان کا تمسخر اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہی کچھ گزشتہ برس 2023میں 9مئی کے روز ہوا۔ مسئلہ سیاست اور پی ٹی آئی کے اقتدار سے الگ ہونے کا تھا۔ اقتدار سے یہ علیحدگی بھی اسی جمہوری طریقہ سے عمل میں آئی تھی جس کے تحت اس جماعت نے اقتدار حاصل کیا تھا۔ پارلیمنٹ کے اندر عدم اعتماد کی تحریک کا مطلب دولشکروں کے درمیان اعلان جنگ ہرگز نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک سیاسی عمل ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کو سیاسی انداز سے ناکام بنانے کی کوشش کرنا برسرِ اقتدار جماعت کا حق تھا اوراگر پارلیمنٹ میں ووٹ کم تھے تو پھر پی ٹی آئی کی طرف سے اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں اسے ضد یا اپنی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیئے تھا۔
  بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہمارا اقتدار ہو اور اسی مزاج نے پاکستان میں جمہوریت کیلئے ماضی میں بہت سے مسائل کھڑے کیے۔ پی ٹی آئی نے بھی محض اپنی ضداور نوجوان نسل میں اپنی مقبولیت کے زیر اثر عدم اعتماد کی تحریک کا جمہوری طریقے سے مقابلہ کرنے کی بجائے عوام میں اپنے حمایتی طبقہ کو ساتھ ملاکر مزاحمت کا طریقہ اختیار کیا جس میں ہرگزرتے وقت کے ساتھ تشدد کا عنصر شامل ہوتاچلا گیا۔ ہمارے عوام جو پہلے ہی سیاسی معاملات میں جذباتیت کا شکار ہوکر باہمی طور پر تقسیم کا شکار تھے اور اپنی جماعت یا من پسند سیاسی لیڈر کیلئے جلاؤ گھیراؤ کی کیفیت میں مبتلا ہونے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ پی ٹی آئی نے سیاسی مسئلہ کو سیاسی انداز سے حل کرنے کے حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں کی تمام مصالحتی کوششوں کو رد کرتے ہوئے اقتدار کے حصول کیلئے اپنے ایجنڈے کو جنگی انداز میں آگے بڑھایا تاکہ پنجابی فلموں میں مولا جٹ کے کردار کو پسند کرنے والے ہمارے عوام مزید پرجوش ہوکر اپنے لیڈ ر کی حمایت میں نکل کھڑیہوں۔ 
   اس پوری صورت حال میں اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب اقتدار سے علیحدگی کو بانی پی ٹی آئی کی طرف سے ملک کی سلامتی کے واحد ادارے پاک فوج کے ساتھ جوڑتے ہوئے بیانیہ بنایا گیا کہ اس منصوبے کو پاک فوج کی حمایت حاصل تھی۔ اسے پی ٹی آئی کے بعض حامیوں نے بڑے منظم انداز میں پی ٹی آئی کے غصہ کا رخ پاک فوج کی طرف موڑ دیا۔ یہ انتہائی حیران کن عمل تھا کہ اقتدار سے باہر آنے کے بعد پی ٹی آئی کے جلسے جلوس اور ریلیوں کے سلسلے میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے پولیس کا استعمال اس قت کی حکومت کررہی تھی۔ جو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اتحاد کی صورت میں اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن بانی پی ٹی آئی کی تقریروں نے اپنے حامیوں کے پاک فوج کے خلاف تحفظات میں مزید اضافہ کردیا۔ گو بانی پی ٹی آئی اپنے بیانات میں پاک فوج کے ساتھ اختلاف سے انکار کرتے رہے لیکن ساتھ ہی وہ پاک فوج کے چند اعلیٰ افسران و قیادت کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے۔ یہ طریقہ کار عوام کے اندر خاص طو ر پر پی ٹی آئی کے وابستگان میں پاک فوج کے خلاف اشتعال دلانے کا سبب بنا جس کی انتہا پاک فوج کے مراکز و تنصیبات پر توڑ پھوڑ اور شہدا کی تضحیک کی صورت سامنے آئی۔ لاہور میں کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا تو سب حیران تھے کہ مسئلہ سیاست کا ہے۔ حکومت پی ٹی آئی کے مخالف سیاسی اتحاد کی ہے تو پھر چھاؤنیوں میں گھس کر فوج کی تنصیبات و دفاتر کو نقصان پہنچائے کی کوشش کس لیے۔
  کاش یہ سب نہ ہوتا جس نے پاکستان میں باہمی نفرتوں کے ایک ایسے نئے طوفان کو جنم دیاجو آج پوری قوم کواپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ دنیا میں شاید یہ پہلا موقع ہوگا جس میں سیاست میں اپنی ناکامی کا بدلہ اپنی فوج کے مراکز اور اپنے ملک کے دفاع میں جان قربان کرنے والے شہدا کی یادگاروں کی توڑپھوڑ کی صورت میں لینے کی کوشش کی گئی۔ اس پر حیران کن بات یہ ہے کہ کہ اس طرح کے جرائم میں ملوث افراد ابھی تک نہ صرف سزاؤں سے محفوظ ہیں بلکہ انہیں مظلوم بنادیا گیا ہے۔ 9مئی 2023ء کو بلاشبہ ملکی تاریخ سیاہ دن کے طورپر یاد رکھے گی جس میں صرف اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے اہم قومی اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔شہدا کی توہین کی گئی اور اس پر اظہار ندامت کی بجائے پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف عوام میں بغاوت ابھارنے کیلئے ایسے جھوٹے واقعات اور من گھڑت قصے تراشے گئے جنہیں کوئی پاکستان دشمن بھی زبان پر نہ لاسکے۔فوج کے اندر پھوٹ ڈالنے کی کوشش الگ سے کی گئی۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ فوج ہی ہے جو ملک میں ہر قدرتی آفت کے وقت متاثرہ علاقوں میں سب سے پہلے متحرک نظر آتی ہے۔ یہی پاک فوج ہے جس پر اعتماد کی بدولت ہمارے دوست ممالک ہر مشکل اور معاشی بدحالی کی صورت حال میں پاکستان کی مدد میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ پاک فوج جو بھارت کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے حوالے سے بھارت کے ساتھ ملک کے دفاع کیلئے چار جنگیں لڑ چکی ہے جن میں ہمارے بہادر افسران وجوان وطن اور وطن میں بسنے والے عوام کی خاطر قربان ہوگئے۔ ان کی اس شہادت کو یادرکھنے کا طریقہ یہی ہے کہ ہم ان کی یادگاروں کو بھی عزت دیں اور ان کے کارناموں کو اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کرتے رہیں تاکہ ملک میں آئندہ کبھی 9مئی جیسا کوئی اور واقع جنم نہ لے سکے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...