پی ٹی آئی ایک معلق انتشار

  7 مئی کو یعنی 9 مئی سے دو روز قبل ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی کانفرنس کا مطلب اس کیسوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں علم تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت 9 مئی کو قوم کی طرف سے مسترد کردیے جانے کے بیانیے کو پوری ڈھٹائی سے فوج اور عوام کے درمیان خلیج کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے جا رہی ہے ۔ تحریک انصاف  نے یہ بیانیہ 8 فروری کو لانچ کیا تھا۔ صرف دوسال پہلے کا جائزہ لیا جائو تو یہ بات پاکستان کے ہر باشعور فرد کی زبان پر ہے کہ عوام تحریک انصاف کی تین ، ساڑھے تین سالہ حکومت کو رد کر چکے تھے۔ 
اگر عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تخت سے اتار کر مظلوم نہ بنایا جاتا تو عوام خود ان کو دھکے دے کر باہر نکالتے۔ اوپر سے ظلم یہ ہوا کہ انہی لوگوں کو حکومت میں واپس لے آیا گیا جن کے بارے پہلے ذہن سازی کی جا چکی تھی کہ چور ، لٹیرے ، ڈاکو اور پتہ نہیں کیا کیا ہیں۔ ستم در ستم کہ عدالتوں کے ذریعے ان کے کیس  اور سزائیں ختم کروائی گئیں۔ 
اگر یہ سارا کچھ نہ ہوا ہوتا تو آج عمران خان کی بھی حالت وہی ہوتی جو مولانا فضل الرحمان کی ہے۔ پی ٹی آئی کو منڈیٹ تو کیا ملتا، ان کی ضمانتیں تک ضبط ہوتیں۔ 
 سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خان خود کو سنجیدہ سیاستدان ثابت ہی نہیں کر سکے۔ ٹیم بنائی تو کمزور اور کوئی پالیسی بنائی تو بے بنیاد۔ یا تو سیاسی نابلد لوگ ساتھ چمٹا لیے یا پھر مختلف جماعتوں سے اڑ کر آئے ہوئے پرندے جمع کر کے بیٹھ گئے۔ 
 اب تو خود پی ٹی آئی کے ورکرز میڈیا پر آ کر یہ ماتم کر رہے ہیں کہ پارٹی کو دوسری سیاسی جماعتوں سے بھاگ کر آنے والے لیڈرز کی مشاورت سے چلایا جا رہا ہے۔ چھبیس ستائیس سال کی مسلسل سیاسی جدوجہد کے بعد بھی اگر کوئی لیڈر اپنی پارٹی کے لیے نظریاتی لیڈرشپ پیدا نہ کرسکے اور دوسری پارٹی کے لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہے تو اس کو لیڈر کہنا مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔
 ظلم دیکھئیے کہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بذات خود دوسری پارٹیوں کے تربیت یافتہ لیڈر ہیں۔ جس پارٹی کے پاس نظریہ ہی نہ ہو اور جو مذہب کو بھی مذہبی ٹچ کے طور پر استعمال کرے تو ظاہر ہے اس کا ورکر اور سپورٹر سوائے ایک معلق انتشار کے اور کیا ثابت ہوسکتا ہے۔
 جن دنوں تحریک انصاف بنائی جا رہی تھی اس وقت ایک ہی بات عمران خان کے ہونٹوں پر مچلتی رہتی تھی کہ وی آئی پی کلچر ختم کرنا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وی آئی پی پہلے زیادہ جمع ہوگئے ہیں البتہ کلچر ختم ہوگیا ہے اور اب صرف گالی گلوچ کی سیاست چلے گی۔ پھر ووٹرز کو یہ بتایا گیا کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور انصاف کی بحالی ہمارا بنیادی منشور ہے ، پھر یہ یقین دلایا گیا کہ ملک میں موجود سیاست اور ملک کے نظام میں تبدیلی ہماری منزل ہے لیکن پتہ چلا کہ نہ کرپشن کا خاتمہ ہوسکا نہ انصاف بحال ہوا۔  تبدیلی بھی آئی تو وہ والی نہیں جس کا جھانسہ عوام کو دیا گیا تھا بلکہ اپنے ورکرز کو پیچھے دھکیل کر پارٹی اور حکومت کی باگ ڈور فصلی بٹیروں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ 
 ساڑھے تین سال کی حکومت کے دوران تحریک انصاف کے پاس پورا پورا وقت تھا کہ وہ اپنی پارٹی کی تنظیم سازی کرتی اور ورکرز کی سیاسی و نظریاتی تربیت کرتی لیکن شہرت اور مقبولیت کے زعم نے نہ عمران خان کو اس حوالے سے کچھ کرنے دیا نہ بیچارے باقی لیڈرز کے پاس یہ سیاسی توفیق تھی۔ سارا زور سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی ٹائیگرز بنانے اور ان ٹائیگرز کو لوگوں کی ایسی کی تیسی کرنے پر لگایا گیا۔ جب ایک سیاسی پارٹی کی لیڈرشپ کا ویژن ہی خود پسندی اور نرگسیت ہوگا تو اپنے آپ سے باہر نکل کر دیکھنے کی اہلیت کہاں سے آئیگی۔ عمران خان نے جس طرح خود کو پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں سے بچانے کے لیے بار بار ، بار بار عوام کو بلایا یا، الرٹ پہ رکھا یا پھر ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کیا۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔
 اپنے لیڈر کو گرفتاری سے بچانے کے لیے کارکنوں نے کیا کیا تکلیفیں نہیں سہیں؟ عمران خان کے گھر کے باہر پولیس اور کارکنوں کے درمیان کیا کچھ ہوتا رہا۔ پوری دنیا نے دیکھا  اور پھر بالآخر 9 مئی کو وہ کچھ بھی ہوگیا جس نے ایک دفعہ تو اپنے ہی وطن کی سالمیت ، وقار اور دفاع تک کو خطرے میں ڈال دیا۔
 اگر 9 مئی کے واقعات تحریک انصاف کی پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کے نتیجے میں نہیں بھی ہوئی پھر بھی پی ٹی آئی اس سانحے سے خود کو قیامت تک کے لیے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ 
کیا اب یہ کسی سے ڈھکا چھپا رہ گیا ہے کہ پچھلے چھہتر سالوں سے ملک کو کس ڈیزائن پر چلایا گیا ہے۔ عمران خان میچورٹی کا ثبوت دیتے تو پہلے ان سب حالات ، سیاق و سباق ، پس منظر ، پیش منظر اور پس ِ پردہ محرکات کو سمجھتے اور ملک کو ترقی و استحکام کے راستے پر لے کر چلنے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل بناتے۔ لیکن انکے مشیروں میں سیاست کا کوئی مخلص اور دانا کھلاڑی ہوتا تو ان کو کوئی صائب مشورہ بھی دیتا۔
 بابر اعوان جیسے سینئرز بھی ان کو فن ِ حکمرانی ہی سکھاتے رہے اور یہ نہ بتا سکے کہ اگر مخالف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے تو اسمبلی میں رہ کر محب وطن اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے نا کہ عوام کو گمراہ کرکے فوج کے آمنے سامنے لانے کا گھنائونا طریقہ اپنانا چاہیے۔ پولیس کے ہاتھوں عوام کو مروا مروا کر نوجوانوں کا بھرکس نکلوا دیا گیا۔ پھر لوگوں کو فوجی تنصیبات کو ہدف بنانے کے لیے اشتعال دلایا گیا۔ صرف اقتدار کی خاطر ملک کی اکانومی سے لیکر امن و سکون تک کو تباہ کیا گیا۔
 عوام پچھلی سیاسی حکومتوں سے نفرت کے باعث ایک ایسے لیڈر کے پیچھے چل پڑے تھے۔ جس نے صبح کچھ اور فیصلہ کیا تو شام کو کچھ اور۔ آج کسی کو وزیر بنایا تو کل کسی اور کو۔ آج بکر کو کوئی پارٹی عہدہ دیا تو دوسریدن اسے ہٹا کر وہاں زید کو بٹھا دیا۔ ایک ہی تقریر دہرا دہرا کر بیچارے عوام کو ذہنی مریض بنانے کی کوشش کی۔ بالخر آج نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خود جیل میں ہیں ، پارٹی قیادت کمپرومائزز کھیل رہی ہے اور عوام بیچارے تھک ہار کے روٹی روزی کے چکر میں گم ہوچکے ہیں۔ ستائیس سالوں میں نہ جم کے تنظیم سازی ہوئی نہ نظریے پہ کام ہوا ، نظریہ سازی ہوئی نہ کردار سازی۔ پاکستان کو درپیش حقیقی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے نہ تحقیق کی گئی نہ منصوبہ بندی اور عوامی طاقت کو اپنی حفاظت کے لیے کالیں دے دے کر لوگوں کی کمر توڑ دی گئی اور پھر آخر میں جلوس کو لبرٹی چوک سے کورکمانڈر ہاؤس لے جاکر عین وہی کچھ کیا گیا جو پاکستان کا دشمن چاہتا تھا۔ 
یہ ہے کل ملا کے ساری داستانِ سیاست۔ اب بھی اگر پوری قوم سے صدق دل سے معافی مانگ کے پارٹی کو ٹریک پر نہ لایا گیا تو پھر اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں ہونا کہ تحریک انصاف ایک معلق انتشار کا نمونہ پیش کرتی یا تو ختم ہوجائیگی یا پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی طرح اپنی شکل بدل لے گی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...