مہنگائی کیخلاف بھی ایمرجنسی کے نفاذ کی ضرورت

پاکستان اور عالمی بینک اصلاحات اور ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے ایک نئے مضبوط اور پرجوش کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک پر کام کرنے پر متفق ہو گئے۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے جنوبی ایشیا کے لئے ورلڈ بینک کے علاقائی نائب صدر مارٹن رائسر نے وفد کے ساتھ ملاقات کی جس میں کنٹری نمائندے ناجی بن حسین بھی موجود تھے۔ وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کی ترقی میں عالمی بینک کے تعاون کو سراہا۔وفد کی طرف سے پاکستان میں معاشی استحکام کی مکمل یقین دہانی کرائی گئی۔دریں اثناء  وزیراعظم نے ملک میں تعلیم کے فروغ کیلئے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان اور سکول سے باہر 2 کروڑ 60 لاکھ بچوں کے سکولوں میں اندراج کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی،انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم عزم و حوصلہ سے کسی بھی چیلنج پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے، ملک میں تعلیم کے شعبہ کی خود نگرانی کروں گا،ہم یکسو ہو کر چلیں تو پاکستان ہر شعبے میں اپنا نام پیدا کرے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔یہ تو آج سے کئی سال پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ بہرحال دیر آید درست آید۔ کوئی بھی ملک معاشرہ ادارہ اور شعبہ تعلیم کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔تعلیم کے ذریعے ہی نوجوان نسل ستاروں پر کمند ڈالنے کے قابل بنے گی۔ ہمیں با مقصد تعلیم کی طرف آنا ہے۔ آج ملک گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ دیگر بھی بہت سے شعبے انحطاط پذیر ہیں، تعلیمی ایمرجنسی کی طرح ان میں بھی بلا تاخیر ہنگامی اقدامات اٹھانے ضرورت ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ معاشی ایمرجنسی کے نفاذ سے اگر ان کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے تو اس سے قطعی گریز نہ کیا جائے۔پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے مگر ہمارے وسائل کو کرپشن بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں نے چوس لیا ہے۔ان معاملات و معمولات اور دگرگوں حالات سے وزیراعظم شہباز شریف آگاہ ہیں۔اس حوالے سے ان کی طرف سے مناسب اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے انہوں نے ٹیکس وصولی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے افسران کے کام کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اچھے افسران کو انعام دیں گے لیکن کرپٹ عناصر اور کرپشن نہ روکنے والے افسروں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کام کریں یا گھر جائیں، واجبات وصولیوں کا ہدف کم ہے، ہم قرض لینے پر مجبور ہیں خراب کارکردگی والے افسروں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ان کا یہ کہنا بیان برائے بیان نہیں تھا بلکہ کئی افسروں کیخلاف کارروائی بھی عمل میں لائی گئی۔وزیر اعظم نے وہاں موجود افسروں پر واضح کیا کہ انہیں بتایا گیا کہ 2700 ارب روپے کے ٹیکس کا معاملہ پہلے ہی لٹکا ہوا ہے، تین سال کے سیلز ٹیکس سے ساڑھے سات سو ارب روپے غائب ہیں جو کرپشن، فراڈ، لالچ اور جعلسازی سے ہڑپ ہو گئے اور صرف 1 ارب 60 کروڑ وصول ہوئے۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کہاں کہاں اور کس طرح پھیلی ہوئی ہے۔وزیراعظم کے ساتھ عالمی بینک کے وفد کی ملاقات خوش آئند رہی جس میں پاکستان میں معاشی استحکام کی مکمل یقین دہانی بھی کرائی گئی۔مگر قرض سے آپ ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے نہیں کر سکتے۔قرض وقتی طور پر آپ کا گزارا چلا سکتا ہے۔پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے ان کو درست طریقے سے بروئے کار لایا جائے اور پاکستان کی معیشت کو لگنے والے نقاب بند کر دیئے جائیں تو پاکستان خود انحصاری کی طرف آتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔
حکومت کو بچت کے اقدامات کرنے چاہئیں اور اشرافیہ کی بے جا اور بے بہا مراعات پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔حکومتی اخراجات میں بچت کے حوالے سے وزیراعظم کی طرف سے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے۔ ایک کمیٹی گْزشتہ دور میں وزیراعظم شہباز شریف نے ناصر کھوسہ کی سربراہی میں بنائی تھی۔اس کمیٹی کی سفارشات پر ہی عمل ہو جائے تو عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔اس کمیٹی کی سفارشات میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ایک ہزار ارب روپے سالانہ بچت کی جا سکتی ہے۔پچھلے برس اقوام متحدہ کے یو این ڈی پی یونائٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان میں سالانہ سترہ اعشاریہ چار ارب ڈالر اشرافیہ کی مراعات پر خرچ کیے جاتے ہیں۔جس میں ٹیکس چھوٹ، صنعتوں میں بجلی گیس پر سبسڈی، مفت پٹرول اور پلاٹ شامل ہیں۔یہ رپورٹ حکام کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔ حکومت تھوڑا سا مینج کر لے تو یہی وسائل عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں۔
     حکومت ایک طرف عوام کو ریلیف دینے اور مہنگائی میں کمی کے اقدامات کر رہی ہے دوسری طرف عوام پر مہنگائی کا بوجھ بھی لادا جا رہا ہے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو ایک معمول بنا لیا گیا ہے۔فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اس بجلی پر بھی وصول کیے جاتے ہیں جو صارفین نے استعمال ہی نہیں کی ہوتی۔یہ بجلی جس نے بھی استعمال کی، لائن لاسز ہوتے ہیں یا چوری کی گئی ہوتی ہے اس کے اگلے مہینے ان صارفین کو اس کے بل ڈال دیئے جاتے ہیں جو ذمہ داری اور دیانتداری سے بر وقت اپنے بل ادا کرتے ہیں۔نیپرا کے جاری کردہ تازہ ترین نوٹیفکیشن کے مطابق اس ماہ پھر بجلی کی قیمتوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں دو روپے 83 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے جس سے حکومت 26 ارب روپے وصول کرے گی۔گویا پچھلے ماہ 26 ارب روپے کی بجلی چوری کی گئی ضائع ہوئی یا جو بھی ہوا ،کسی اور کی نا اہلی کوتاہی نالائقی کا سارا ملبہ صارفین پر ڈال دیا گیا۔
جب پٹرولیم اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر مہنگائی کو بڑھنے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔ مہنگائی میں اضافے کے محرکات کو سختی اور سنجیدگی سے کنٹرول نہیں کیا جا رہا۔بجلی کے نرخوں میں آئے روز اضافے نے عوام کو بے سدھ کر دیا ہے۔ بجلی کمپنیوں کی شتر بے مہار من مانیاں عوام کو حکومت کے خلاف احتجاج پر مجبور کر رہی ہیں۔حکومت ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے اس کے لئے آئین کے تحت چاہے مالیاتی ایمرجنسی ہی کیوں نہ لگانی پڑے۔ 

ای پیپر دی نیشن