JUSTICE DELAYED IS JUSTICE DENYED                                 

خیال تو تھا کہ 9مئی  جسے  پاکستان کی تاریخ کا سیا ہ ترین دن کہا جا سکتا ہے  ، اس پر لکھنا ضروری ہے مشرقی پاکستان کی علیحدگی ،سانحہ پشاور جیسے سانحات  ہماری تاریخ کا  حصہ ہیں جس میں 9مئی کا اضافہ ہوچکا ہے اگر  9مئی 2023ء پاکستان کے اذلی دشمن کی جانب سے ہوتا  جوچاہتے ہوئے بھی گزشتہ 76 سالوں سے اپنی خواہش کو  عملی جامعہ نہیں پہناء سکا  9مئی اگر انکی جانب سے ہوتا تو  پاکستانکی  مضبوط عسکری طاقت اسکا وجود نقشہ سے مٹا چکی ہوتی  ،افسوس کے دوسرے کے کاندھوںپر سوار ہوکر سیاست کرنے ، ملک میں حکمرانی کرنے کے خواہش مندوں نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے پاکستان کے معصوم عوام کو  اپنے سوشل میڈیا اور اپنی تقاریر کے ذریعے    انکے دلوں میں نفرتوں کو ہر لحمے پروان چڑھایا   افواج پاکستان  اور ریاست  پاکستان کے خلاف  نفرت کو جنم دیا اور  وہ سب کچھ کیا جو  9مئی کودنیا نے دیکھا ۔ مگر نہ جانے کیوں آج ایک سال ہونے کے باوجود کسی شخص کو سزا نہیں دی گئی عدالتی نظام کو اس بات کی فکر ہے کہ سویلین کو سزائیں ملٹری کورٹس نہیں بلکہ عدالتیں دینگی عدالتوں کے طویل طریقہ کا ر سے اصل مجرمان سزائیں نہیں پاسکے گا  جرائم کرنے والے اگر سزائیں نہ پاسکیں وقت پر  توتاخیر پر جرم کی سنگینی کم ہوجاتی ہے اور خاص طور جس ملک میں سانحات ہونا معمول کا  حصہ ہو اور اسکا کوئی نتیجہ نہ ہوتااس تاخیر میں پاکستان کے محب وطن کے عوام ان لوگوں کی سزائیں کب سنیں گے جنہوںنے عسکری دفاتر پر حملہ کیا ، بانی پاکستان کی تصاویر کی بے حرمتی کی ، ایم ایم عالم جیسے بہادر کے طیارے کو روند دیا  ؟   ملزمان یا مجرمان کو سزائیں چاہے عام عدلیہ دے یا  ملٹری کورٹس اگر انہیں سزائیں نہیںدی گئیں تو ایسے ریاست اور افواج کے دشمن لوگو ںکی حوصلہ افزائی ہوتی ہے انکی آج بھی  سرگرمیاں اور بیانات ، انکے سوشل میڈیا کے حوصلے اس بات کا مظہر ہیں کہ وہ کسطرح اپنے بیانئے پر قائم ہیں اب تو حد ہوگئی انکی ایک رہنماء  9مئی سانحہ کو  FALSE FLAGE OPERTION  سے یعنی فوج کو اپناہی تیارکردہ منصوبہ قرار دے رہے ہیں ، پاکستان کے عوام خوش ہیں فوج کے اداروں نے از خود ان افراد کو  سزائیں دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی جو  9مئی واقعہ میں اس خوشی میں شامل تھے کہ اب انکی مرضی کا  آرمی چیف آجائے گا  ۔ یہ ہوتا ہے ملک دشمنوں کو  فوری سزا دینے کا صحیح طریقہ ، مگر اب  جوڈیشنل کمیشن بنانے کی کہانی ہورہی ہے اس کا مطلب ابھی اصل ملزمان ، اور اسکے سہولت کاروںکوسزائیں ملنے میں مزید وقت ہے اور شک ہے کہ یہ سانحہ بھی دیگر سانحات کے ساتھ ساتھ  فائیلوں کا حصہ بن جائیگا  اور اسکے ملزمان ، سہولت کار  اس ملک میں دندانتے  پھریں گیں کبھی ڈیل ، کبھی رہائی کی باتیں ہونگیں اگر ایسا ہوا تو پھر  ہم بھول جائیںکہ اس ملک میں کوئی ریاست اور افواج پاکستان کے خلاف اپنے مذموم ارادوں کے ساتھ منفی پروپگنڈہ نہیں کرے گا چونکہ جب قرار واقعی سزائیں اندرونی طور پر ذمہ داروںکو نہیں ملینگی تو بھارت ، یا افغانستان کے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کیوں ؟؟   گزشتہ روز ISPR کے ترجمان  جنرل  احمد شریف چوہدری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے فوج کا  نقطہ نظر جو  عوام کا نقطہ نظر تھا  پیش کیا عدلیہ کے کرتا دھرتا  بھی اس پر توجہ دیلیں یا  کم از کم وہ لوگ جو ۹ مئی کو    ٖFALSE FLAGE OPERATION  کہتے ہیں اپنی تصیح کرلیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کرپشن کے بے شمار معاملات  عوام کو بتائے جاچکے ہیں مگر تاحال
  گزشتہ نصف صدی سے کسی کو سزا ہوتے ہوئے نہیں دیکھی گئی  جن پر الزامات لگتے ہی وہ چہرے بدل بدلکر ملک پر حکومت کرتے ہیں اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں ایسا ہی ایک واقعہ آجکل عوام کے سامنے ہے کہ کسطرح  ملک میں اناج کی مثالی فصل ہونے کے باوجود 
ملکی خزانے کونگران حکومت نے گندم درآمد کرکے قومی خزانے کو  300ارب سے زیادہ کا نقصان کیا ۔ نگران حکومت نے  اسکے علاوہ بھی اس ملک پر کئی مہربانیاںبھی کی ہیں سرکاری ٹی وی PTV کو اشد نقصان پہنچایا  آج یہ ادارہ مقروض ہوگیا ہے پہلی مرتبہ وہاں کے ملازمین کو تنخواہوںمیٰں تاخیر ہوئی بینکوں سے قرض لیا جارہا ہے ، اس ادارے کے ملک کے خلاف اور دوست ممالک کے خلاف پروپگنڈہ کو  استعمال کیا  ۔گندم اسکینڈل میں وزیر اعظم شہباز شریف  نے تحقیقاتی ٹیم بنادی ہے ،تحقیقاتیں ہمارے ملک میں ہوتی رہتی ہیں یہ بھی ایک تحقیقات ہی ہوگی نتیجہ  کیا ہوگا  کیا ملکی خزانے کونقصان پہنچانے والے 300ارب بھی اس سے فائدہ اٹھانے والوںکے حلق سے نکالے جائینگے  ؟؟ سابق نگراں وزیر اعظم کاکڑ کہتے ہیں کہ صوبوںکا مطالبہ تھا اور خاص طور پر  پنجاب کا نام لیتے ہیں اسوقت کے وزیراعلی  جو اب وزیر داخلہ ہیں کہتے ہیں یہ سب جھوٹ  ۔۔ کہا جاتا ہے کہ وزارت تجارت اور ٹی سی پی کی کی تجاویز نظرانداز کردی گئیں اور نجی شعبے کو کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی سے بھی چھوٹ مل گئی۔ اس عمل سے قومی خزانے کو 300ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔جبکہ  یہ بات متوقع تھی کہ اس بار ملک میں گندم کی شاندار فصل حاصل ہوگی۔ اس کے ذخیرہ اور فروخت کرنے کے خاطر خواہ انتظامات کئے جانے چاہئیں تھے جبکہ باردانہ کی فراہمی سمیت کسانوں کو وہ تمام سہولتیں دی جاتیں جن سے غیرمعمولی منافع حاصل کرنے کی امیدیں پوری ہوتیں۔ اس وقت کے متعلقہ وزیر کی مخالفت کے باوجود یوکرین سے گندم امپورٹ کرنے کی سمری وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی جو سرکولیشن کے ذریعے منظور کرلی گئی۔ مذکورہ خریداری اور درآمد زرمبادلہ کی فراہمی سمیت کئی معاملات پر قابو پائے بغیر ممکن نہیں تھی جبکہ ڈالروں کا بندوبست بھی ہوگیا اور دوسری راہیں بھی ہموار ہوگئیں۔جہاں ہم ڈالر کیلئے محلے محلے گھوم رہے ہیں وہاں کیسے ڈالرز بھی منظور ہوگئے اس سازش کیلئے  ؟؟  اب کہتے ہیں کہ اس درآمد سے کابینہ کو  لاعلم رکھا گیا جبکہ ممکن ہے کہ کابینہ میں بیٹھے وقتی وزراء نے بھی کمائی کا ذریعہ بنایاہو ۔  یہ سب باتیں توجہ طلب اور تفتیش طلب ہیں، ملک میں پیدا ہونے والا اناج جو ہمارے کسانوں نے پیدا کیا  وہ کسان اپنی کاشت لئے بیٹھے ہیں ان وجوہات کی بناء پر ان سے گندم خریدا نہیں جارہا  وہ  احتجاج کررہے ہیں کسانوں کے مظاہرے جاری ہیں، گرفتاریاں اور لاٹھی چارج کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ کسان منتظر ہیں کہ گندم خریداری مہم شروع ہو جبکہ آڑھتی کسانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر ان سے سستے داموں گندم خرید رہے ہیں۔ پاکستان کسان اتحاد کے مطابق گندم کے کاشتکاروں کو انکی لاگت بھی وصول نہیں ہورہی۔ سرکاری قیمت سے ایک ہزار روپے فی من کم قیمت پر گندم خریدی جارہی ہے۔ اس صورتحال میں وہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ آئندہ فصلوں کپاس اور چاول کے لئے ضروری لوازمات خرید سکیں۔ موجودہ بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سابق نگران حکومت نے گندم کی کٹائی سے چند ہفتے قبل درآمدی گندم سے سرکاری گودام بھردئیے جسکے باعث نئے اسٹوریج کی گنجائش نہیں رہی۔ عملی صورتحال یہ ہے کہ کسان پریشان ہیں، انکی معیشت کا بیشتر انحصار گندم کی فصل اور آمدن پر ہے۔ سرکار نے گند م کی خریداری کے جونرخ مقرر کئے تھے وہ انہیں حاصل نہیں ہورہے۔ باردانہ نہیں مل رہا۔ گندم فروخت نہیں ہوپارہی۔ یہ کیفیت اذیت ناک ہے۔ حکومت کو گندم کی خریداری کے ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی
 بنانا چاہیے کہ اگلی فصل پر گندم کی بوائی کی حوصلہ شکنی نہ ہو، تحقیقات کا نتیجہ کچھ بھی ہو  یہ بات سمجھ لینا چاہئے سابقہ ریکارڈ کی بناء پر کسان ایسے ہی شور مچا کر خاموش ہوجاینگے جو  300ارب سے مستفید ہوئے وہ ہضم کرکے اور کسی واردات کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں یہ ہی ہمارا نظام ہے ، اگر کسی کوگرفتار کیا تو وہ عدالت چلا جائے گا وہاں مہینوں مقدمہ چلے گا جھوٹ سچ کا راج ہوگا رہائی ہوجائے گی انصاف میں تاخیر  انصاف سے انکار ہے ۔ کرپشن   ٹائیں ٹائیں فش  

 
 

ای پیپر دی نیشن