ریلوے پنشنرز سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کےدوران ریلوے حکام نے محکمے کی بحالی سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ خراب انجنوں کوٹھیک کروانےکےلیے اٹھائیس ارب روپے درکار ہیں۔ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ سے مہر لگوانے کے لیے یہ رپورٹ پیش کی ہے، اتنے پیسوں میں تو نئی ریلوے کھڑی کی جا سکتی ہے۔سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے کہا کہ از خود نوٹس کی کارروائی کے بعد ریلوے میں کچھ بہتری آئی ہے جبکہ کچھ کرپٹ افراد کو بھی نکال دیا گیا ہے۔ ریلوے سکریپ کی فروخت میں بڑی مچھلیاں ملوث ہیں اسی لیے کرپٹ افسروں کے کیس نیب کو نہیں بھیجے جا رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ انجنوں کی خریداری کا پرانا معاہدہ ابھی تک منسوخ نہیں کیا گیااورمعاہدے کے لیے لے گے قرضے پرروزانہ ایک لاکھ پچیس ہزارروپے سود ادا کیا جارہا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چئیرمین نیب کو ریلوے کرپشن کی تحقیقات کے لیے کہا جائےگا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق کوریلوے بہتری کے لیے ریلوے کے اعلی حکام سے مل کرلائحہ عمل طے کروانے میں مدد کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت تئیس نومبر تک ملتوی کردی ۔