پیپلز پارٹی کے ساتھ کام کرنے میں مزا آرہا ہے‘ چودھری پرویز الٰہی۔
مزا تو آنا ہی ہے‘ ڈپٹی وزیراعظمی کے ساتھ ساتھ ہوٹر والی گاڑی جو مل چکی ہے۔ پروٹوکول بھی ایک چسکا ہے‘ جب چسکا پورا ہو گا تو مزا آنا فطرتی بات ہے۔ غالب نے بھی چسکے کی یوں تصویر کھنیچی ہے....ع
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
چودھری صاحب جن کے ساتھ آپ نے سیاسی ہاتھ جوڑے ہیں‘ وہ دایاں دکھا کر بایاں مارتے ہیں۔ دودھ اور پانی کے بہاﺅ کا جلد پتہ چل جائیگا۔ چینی کہاوت ہے کہ دور کے رشتہ دار سے قریب کا ہمسایہ بہتر ہوتا ہے۔ آپ 14 سالہ قریبی ہمسائیگی اور دوستی پر سرخ لکیر کھینچ کر جن کے گلے لگے ہیں‘ اس بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے....
مزا مزا کردا ایں جدوں مزا آﺅ گا
پتا لگ جاﺅ گا
منظور وٹو کو میدان میں اتارا جا چکا ہے ۔میاں نواز شریف نے بھی (ق) لیگیوں کیلئے کھڑکی کھول دی ہے۔ اگر دونوں پارٹیوں کے تیر ہدف پر لگے تو یقین جانیے عام انتخابات میں آپ کو پانچ روپے کلو کے حساب سے پارٹی ٹکٹیں فروخت کرنی پڑیں گی۔ لہٰذا چودھری صاحب! پیپلز پارٹی کے ساتھ کافی مزا لے لیا ہے‘ اب قوم اور ووٹروں کے بارے میں بھی سوچ لیں۔
٭....٭....٭....٭
میڈیا کی مادر پدر آزادی پر سب کو سوچنا پڑےگا‘ سینیٹر اسحاق ڈار۔
شاعر نے کہا تھا....
ہم جو بولے ہیں تو وہ آگ بگولہ کیوں ہے
ہم تھے خاموش تو کیا کیا نہ کہا کرتے تھے
ڈار صاحب بغل کے نیچے دیکھیں‘ بہت کچھ آزاد ہو چکا ہے‘ کس کس کے بارے میں سوچیں گے‘ میڈیا کی آزادی پر کسی کے پیٹ میں ”مروڑ“ نہیں اٹھنے چاہئیں اگر میڈیا آمریت کےخلاف اٹھ کھڑا نہ ہوتا تو جناب آج ”سینیٹری“ کہاں سے آتی۔
”میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو“
پر عمل مت کریں‘ میڈیا کو یہ آزادی طشتری میں رکھ کر نہیں دی گئی بلکہ اس نے گولیوں کی تڑتڑ کے سامنے کلمہ حق بلند کرکے اور خون کی ندیاں عبور کرکے یہ آزادی حاصل کی ہے۔ لہٰذا سیاست دانوں کو میڈیا پر ”تبرا“ کرنے کے بجائے اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنی چاہیے۔ سیاست دان اگر لوٹ مار ترک کرنے پر تیار ہوں تو میڈیا خودبخود ”حاجی“ بن جائیگا کیونکہ جب شاخ ہی نہیں ہو گی تو گھونسلہ بنانے کا کون سوچے گا۔ ویسے اگر میڈیا خاموشی اختیار کرلے تو اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے تک ”قومی خزانہ“ بھی پانچ کے ٹھیپے سے لے کر پانچ ہزار کے نوٹ تک سے آزاد ہو جائیگا کیونکہ یار لوگوں نے دونوں ہاتھوں سے پیٹ بھرنا شروع کر رکھا ہے۔
٭....٭....٭....٭
ملالہ فنڈ‘ 10 دسمبر کو پیرس میں ڈونرز کانفرنس ہو گی‘ وفاقی وزیر شیخ وقاص اکرم۔
ساری عمر چالاکیاں وچ گزری
تقویٰ رکھیا ہیریاں پھیریاں تے
بھلا ملدی کویںمراد سرور
امب لگے نہیں کدے وی بیریاں تے
شیخ صاحب اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کا سلیقہ سیکھیں‘ کب تک ہیریاں پھیریاں کرکے فنڈ اکٹھے کرتے رہیں گے؟ کبھی سیلاب متاثرین کے نام پر ڈونرز کانفرنس بلائی جاتی ہے‘ تو کبھی زلزلہ متاثرین کے نام پر لوگوں کے سامنے جھولیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ اتنے روپ تو شاید بہروپیا بھی نہ بدلتا ہو جتنے لوٹ مار کرنے کیلئے پاکستانی حکمران بدلتے ہیں۔ ملالہ کے نام پر اکٹھے ہونیوالے فنڈ کس کس کی جیب میں جائینگے۔ ان پیسوں کی ایسے ہی بندر بانٹ ہو گی جیسے وزارتوں کی ہوئی ہے۔ ڈونرز بھی پاکستان کا نام سن کر ایسے ہوشیار ہو جاتے ہیں‘ جیسے مرغی چیل کو دیکھ کر کان کھڑے کرتی ہے۔ ترکی کی خاتون اول کا ہار نہ جانے اب کس گلے کی زینت بنا ہوا ہو گا‘ اسی طرح ملالہ کے نام پر ملنے والے ڈالرز بھی کس کس اکاﺅنٹ میں منتقل ہونگے کیونکہ کمیشن لینا تو جناب پاکستان میں جائز ہے‘ کمیشن کے نام پر ایسی خردبرد ہو گی جیسے رینٹل پاور پلانٹ میں ہوئی ہے۔ لہٰذا شیخ صاحب بیریوں پر امب لگنے کی آرزو مت کریں۔
٭....٭....٭....٭
فیصلے کرنے کا حتمی ادارہ عدالت نہیں‘ صدر پاکستان ہیں۔ قمر زمان کائرہ
کائرہ صاحب منجھے ہوئے اور باصلاحیت سیاست دان ہیں‘ انہیں یہ بات مبہم انداز میں نہیں بلکہ واضح کرنی چاہیے تھی کہ صدر صاحب کا فیصلہ صرف پیپلز پارٹی کی حد تک ہی حتمی ہوتا ہے‘ ملکی سطح پر نہیں۔ فیصلوں کا آئین پاکستان پر پورا اترنا بھی تو لازم ہوتا ہے۔ آئین کی تشریح تو سپریم کورٹ نے ہی کرنی ہے۔ اصغر خان کیس کے فیصلے پر تو پیپلز پارٹی شادیانے بجا رہی ہے‘ کائرہ صاحب کے بیان کے مطابق ہم کیا سمجھیں کہ یہ فیصلہ حتمی ہے یا نہیں؟
سیاست دانوں کو عدلیہ کے سامنے ایسے ہی سرخم کردینا چاہیے‘ جیسے رومنی نے مسکرا کر امریکی عوام کے فیصلے کو قبول کیا۔ دھاندلی کا الزام لگایا نہ ہی الیکشن کمیشن میں کوئی رٹ دائر کی۔ پاکستانی سیاست دان جاگتے اور سوتے وقت امریکہ کا نام لیتے ہیں‘ کاش! وہ امریکی الیکشن میں امن و سکون کو سامنے رکھتے ہوئے عام الیکشن میں پاکستانی عوام کو گولی اور گالی سے محفوظ رکھ سکیں اور امریکیوں کی طرح پاکستانیوں کے بھی حتمی فیصلے کو تسلیم کرلیں لیکن یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا ہاتھی کو اونٹ پر بٹھانا۔