اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ/اے پی اے) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے کہا ہے کہ مجھے سابق آرمی چیف اسلم بیگ نے سیاستدانوں میں رقم تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا، وہ خود کو بابائے جمہوریت سمجھتے تھے۔ یونس حبیب نے 14کروڑ روپے فراہم کئے جن میں سے سات کروڑ سیاستدانوں میں تقسیم ہوئے باقی آئی ایس آئی فنڈ میں چلے گئے۔ وقت نیوز کے پروگرم ”8 پی ایم وِد فریحہ پرویز“ میں گفتگو اور دیگر انٹرویوز میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے براہِ راست کسی کو کوئی پیسہ نہیں دیا۔ صدر غلام اسحاق اور آرمی چیف کا اتفاق تھا کہ ایک بڑی جماعت بنائی جائے۔ آئی جے آئی کی تشکیل میں اسلم بیگ کی مرضی شامل تھی۔ کور کمانڈرز اجلاس میں ملکی صورتحال کے علاوہ آئی جے آئی کے حوالے سے بریفنگ دی جاتی تھی۔ صدر غلام اسحاق کا کہنا تھا کہ میں نے بہت کمپرومائز کیا، اب 58 ٹو بی کا استعمال کروں گا۔ اسلم بیگ نے مجھے بتایا کہ کراچی کی بزنس کمیونٹی حکومت کی بزنس پالیسیوں سے ناخوش ہے۔ انہوں نے فنڈ اکٹھا کیا ہے تاکہ رقم سیاستدانوں میں تقسیم ہو، میں نے رقم اکٹھا نہیں کی۔ یونس حبیب نے بتایا تھا کہ صدر غلام اسحاق اور اسلم بیگ کافی عرصہ سے رقم اکٹھی کرنے کیلئے کہہ رہے تھے۔ صدر نے فیصلہ کرنا تھا کہ سیاستدانوں کو کتنی رقم دینی ہے۔ یونس حبیب نے بنک سے نکلوائے یا بزنس مینوں سے لئے، اس حوالے سے کافی انکوائریاں ہوئیں۔ حبیب بنک کمشن کی رپورٹ منظرعام پر نہیں آ سکی۔ یونس حبیب نے رقم آئی ایس آئی کے پاس جمع کرائی۔ اس عرصہ میں نواز شریف سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ نواز شریف سے ملاقات ان کے الیکشن جیتنے کے بعد ہوئی، جب وہ وزیراعظم بننے جا رہے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آئی ایس آئی فنڈ میں کتنے پیسے ہوتے ہیں، یہ بات درست ہے کہ سیکرٹ فنڈ میں گھپلا کیا جا سکتا ہے۔ اسلم بیگ کو اس رقم میں سے کوئی پیسہ نہیں ملا۔ رقم کی وصولی کے حوالے سے کسی نے ................ سے انکار کیا تاہم رقم کی تقسیم کا معاملہ اسلم بیگ کے اپریل 93ءمیں لکھے گئے آرٹیکل میں سامنے آیا اور بینظیر بھٹو کو معلومات دیں۔ بینظیر بھٹو کو کبھی سکیورٹی رسک یا غدار نہیں کہا۔ پی پی کے خلاف آئی جے آئی کو سپورٹ کیا جا رہا تھا ستمبر 90ءمیں یہ کام شروع ہوا۔ فوج صرف پالیسی کی بات کرتی ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ اعتزاز نے سکھوں کی لسٹ بھارت کو دی ہو تاہم بینظیر نے سکھوں کے معاملے میں راجیو گاندھی سے تعاون کا خود اعتراف کیا تھا۔ بینظیر نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ہم نے راجیوگاندھی کو سکھوں کی فہرست دی لیکن راجیو نے اپنا کام نہیں کیا۔ بطور ڈی جی آئی ایس آئی کبھی پی پی کی سی ای سی میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ کئی راز امانت ہیں، جان بچانے کیلئے انہیں افشا نہیں کر سکتا جن باتوں پر تشویش ہے ان کو منظرعام پر نہیں لایا۔ بینظیر حکومت پر بعض تحفظات تھے۔ اسلم بیگ نے تصدیق کی تھی کہ غلام اسحاق، بینظیر کی حکومت ختم کرنے لگے ہیں۔ میں نے اپنے سپریم کمانڈر کے حکم پر عمل کیا، مداخلت نہیں کی۔ مداخلت تو ایوب اور ضیائ، پرویز مشرف کی تھی رقوم کی تقسیم سے متعلق رپورٹ میں نے عدالت میں جمع کرا دی تھی۔ رحمن ملک کو بیان حلفی دے کر غلطی کی۔ پہلے مرحلے میں ایک خط لکھا تھا کبھی آئی ایس آئی نے بینظیر بھٹو یا نصرت بھٹو کی کردارکشی نہیں کی۔ رقوم کی تقسیم کیلئے سیاسی سیل کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ گنتی کے افراد کو رقوم دی گئی تھیں۔ ایم کیو ایم حقیقی آئی ایس آئی کی تخلیقات نہیں تھی۔ جب تاریخی چینل شروع ہو گا تو پتہ چل جائے گا۔ ایم کیو ایم حقیقی کس نے بنائی، اس سوال پر کہ پی پی کی حکومت نے سفیر کیوں بنایا۔ اسد درانی نے کہا کہ 94ءمیں کافی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ آپریشن مڈنائٹ جیکال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان افسروں کو پکڑ لیا تھا، بعد میں فوج سے نکال دیا گیا۔ اس سوال پر کہ جنرل (ر) وحید کاکڑ نے ریٹائر کیوں کیا، اسد درانی نے کہا کہ یہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے، نواز شریف نے کبھی نہیں کہا کہ اسد درانی ہمیں خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ایٹمی پروگرام پر جتنی وزیراعظم کو ضرورت ہوتی اتنی انفارمیشن دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اصغر خان کیس پر عدالتی احکامات سے آئینی اور غیرآئینی ہونے پر ملکی اداروں میں بحث جنم لے گی۔ انہوں نے کہا کہ پیچیدہ مسائل میں لوگ ایک دم نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت فوج کے دو جنرل موضوع بنے ہوئے ہیں جو شرمناک ہے۔ اپنے بیان حلفی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب میں نے بیان دیا اس سے پہلے اسلم بیگ کہہ چکے تھے کہ 14 کروڑ انہیں ملے تو ملٹری انٹیلی کو دیدئیے۔ میں جرمنی میں سفیر تھا۔ جنرل نصیراللہ بابر نے کہا کہ جوڈیشل کمشن کے ذریعے تحقیقات کریں گے۔ میں نے کہا فوج اور ملٹری ایجنسی ملوث ہے، احتیاط سے ہینڈل کریں تو بہتر ہے۔ تب نصیراللہ بابر نے کہا کہ تم سب باتیں وزیراعظم کے نام خفیہ خط میں رقم کر دو تاکہ ہم آرام سے سنبھال لیں۔ میں نے خط میں لکھا کہ حساس معاملہ ہے، اسے سنبھال کر رکھیں۔ میری ناسمجھی تھی کہ میں نے 94ءمیں بیان حلف یدیا جسے 96ءمیں استعمال کیا گیا۔ میرا خیال تھا کہ حکومت جوڈیشل انکوائری کرانا چاہتی ہے اور یہ سیکرٹ رہے گا۔ جب دو سال بعد حکومت پر پریشر آیا تو وزیر داخلہ نے ےط اسمبلی میں دکھا دیا اس سے میرا اندازہ غلط ثابت ہوا کہ ذاتی قسم کا خط تھا جس میں جرم قبول کرنے پر زور ڈالا گیا۔ بطور سفیر وزیراعظم کو خط لکھتا تھا۔