منشیات کے خونخوار عفریت نے بنی نوع انسان کو بری طرح اپنے مکروہ پنجوں میں جکڑ رکھا ہے اور مسلسل اُس کا خون پیئے جا رہا ہے ۔دنیا بھر کی حکومتیں اپنی عوام کو اس عفریت کے چنگل سے چھڑانے کی ہر ممکن کو شش کر رہی ہیں لیکن یہ عفریت کسی طرح قابو میں نہ آرہاہے ۔United Nation Office on Drugs and Crime کی ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق 2011ء میںدنیا بھر میں کینابس(جس سے چرس یا حشیش بنتی ہے ) کی پیدا وار نو لاکھ چھیاسٹھ ہزار ٹن ، حشیش کی نو ہزار نو سو ٹن ، افیون کی سات ہزار آٹھ سو ٹن ، ہیروئن کی پانچ سوٹن او ر کوکین کی پیداوار گیارہ سو ٹن تھی ۔اس سلسلے میں تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ ساری منشیات صرف آٹھ دس ممالک میں پیدا ہوتی ہے اور پھر ساری دنیا میں غیر قانونی طور پر پھیلا دی جاتی ہیں۔
دنیا بھر کی تمام ایجنسیاں مل کردنیا بھر میں پیدا ہونے والی منشیات کابمشکل دس تا بیس فیصد پکڑ پاتی ہیں جبکہ باقی تمام غیر قانو نی راستوں اور ہاتھوں سے گزرتے ہوئے انتہائی مہنگے داموں بکتی بکاتی صارف کے پاس پہنچ جاتی ہیں ۔UNODC کی 2006ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال تین سو پچاس ارب ڈالر مالیت کی منشیات خریدی اور بیچی جاتی ہیں ۔
ایک ملک گیر سروے کے مطابق 2012ء میں پاکستان میں پندرہ سال سے چونسٹھ سال کی عمر کے افراد میں سے تقریباً اسی لاکھ نشہ کرتے ہیں۔ان میں بیس لاکھ نوجوان ہیںجن کی عمریں پندرہ سے پچیس سال کے درمیان ہیں اور تیس لاکھ خواتین ہیں ۔پاکستان میں منشیات کے اس پھیلائو کو روکنے کیلئے حکومت پاکستان نے وزارت انسداد منشیات اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی طرف سے تیار کردہ نیشنل اینٹی نارکوٹکس پالیسی 2010ء کی منظوری دی جس کے تحت ملک بھر کے تمام بیس قانون نافذ کرنے والے اداروں جن میں تمام وفاقی اور صوبائی پولیس فورسز ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ، پاکستان رینجرز، اے این ایف، فرنٹیئر کور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان ، نیشنل کوسٹ گارڈوغیرہ شامل ہیں۔ 2012ء میں ان تمام ایجنسیوں نے منشیات کے خلاف رائج مختلف قوانین کے تحت مجموعی طور پر ایک لاکھ پانچ ہزار کے قریب مقدمات درج کئے ، جن میں تقریباً اتنی ہی تعدا د میںافراد کو گرفتار کیااور اُن سے اُنتیس ہزار پانچ سو کلوگر ام افیون ، ایک ہزار تین سو ستر کلوگرام مارفین ، بارہ ہزار چھ سو ساٹھ کلوگرام ہیروئن ،ایک لاکھ ستر ہزار کلوگرام حشیش اور لاکھوں کی تعداد میں شراب کی بوتلیں ، نشہ آور انجکشن ، گولیاں اور کیپسول برآمد کئے ۔پاکستان کی یہ ایجنسیاں ہر سال کم و بیش اتنی ہی منشیات پکڑتی ہیں ۔اور ہر سال پاکستان دنیا بھر میں منشیات کو پکڑنے والے ممالک میںکارکردگی کے اعتبار سے پہلے دوسرے یا تیسرے نمبر پر رہتا ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں منشیات کیخلاف کام کرنیوالی تمام ایجنسیوں میں سے اپنے حجم اور تعداد کے اعتبار سے اے این ایف شاید سب سے چھوٹی ایجنسی ہے لیکن اسکی کارکردگی کسی بھی ملکی یا غیر ملکی ایجنسی سے کہیں زیادہ ہے ۔ " امید ِنو" کے نام سے کراچی میںڈرگ مافیاکیخلاف یکم نومبر سے ایک خصوصی مہم کا آغاز کردیا ۔ اگر اس ملک کے عوام کو منشیات کے ہاتھوں دردناک موت سے بچانا ہے تو اِسکے خلاف جنگی بنیادوں پر اُسی جذبے ، جوش اور تن دہی کیساتھ لڑنا ہو گا جس طرح پنجاب کی صوبائی حکومت اپنے وزیر اعلیٰ کی سر کردگی میں ڈینگی کے خلاف لڑ رہی ہے۔