علامہ محمد اقبالؒ........ مسلمانانِ ہند کی حیاتِ نو کا پیامبر

علامہ محمد اقبالؒ پاکستانی قوم کے فکری اور نظریاتی رہنما اور ملت اسلامیہ کا عظیم سرمایہ ہیں۔ 1857ءکی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد ہندوستان میں ملت اسلامیہ کو جس زوال کا سامنا کرنا پڑا‘ حکیم الامت نے اس کے اسباب پر غور و فکر کیا اور اپنے افکار کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے قابل فخر ماضی کا احساس دلایا‘ ان کے اسلاف کے شاندار کارناموں کی یاد دہانی کروائی اور درس خودی دیا تاکہ وہ احساس کمتری سے باہر نکلیں اور اپنا کھویا ہوا مقام اور عزت نفس دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر سکیں۔ علامہ محمد اقبالؒ کے افکار نے برصغیر کے مسلمانوں کو حیات نو عطا کر کے انہیں از سر نو جدوجہد پر تیار کر دیا۔ اس مرحلے پر علامہ محمد اقبالؒ نے برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا۔ علامہ محمد اقبالؒ صدق دل سے سمجھتے تھے کہ ”مقصدِ واحد کی لگن والا آدمی ہی سیاسی اور معاشرتی انقلابات پیدا کرتا ہے‘ سلطنتیں قائم کرتا ہے اور دنیا کو آئین عطا کرتا ہے۔“ یہ تمام اوصاف انہیں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ذات میں دکھائی دیے۔ چنانچہ اپنے تصور کو حقیقت کا روپ عطا کرنے کی خاطر انہوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو میرکارواں کی ذمہ داری سنبھالنے پر آمادہ کیا۔ علامہ محمد اقبالؒ کی حریت فکر سے لبریز شاعری نے برصغیر کے مسلمان نوجوانوں میں عقابی روح بیدار کر دی تھی جسے اپنے منزل آسمانوں میں نظر آنے لگی تھی۔ انہی نوجوانوں نے قائداعظمؒ کے دست و بازو بن کر کفر و شرک کے گڑھ ہندوستان کے قلب میں توحید و رسالت کی علامت سبز ہلالی پرچم گاڑ دیا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے جدید اسلامی‘ فلاحی‘ جمہوری مملکت کا خواب دیکھا تھا۔ کیا آج کا پاکستان اس معیار پر پورا اترتا ہے؟ مفکر پاکستان کے 136ویں یوم ولادت پر منعقدہ پاکستان کی سب سے بڑی تقریب میں جوق در جوق شریک ہونے والے حاضرین بالخصوص نسل نو میں سے اکثر کے دل و دماغ پر یہ سوال غالب تھا۔ یہ تقریب نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ نے الحمراءہال نمبر 1‘ شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میں منعقد کی تھی جس کی صدارت تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن‘ آبروئے صحافت اور ٹرسٹ کے چیئرمین محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے کی۔ یہ تقریب ہر سال باقاعدگی کے ساتھ اسی جگہ منعقد ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور شہر کی تابندہ روایت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ تقریب کے آغاز سے قبل ہی وسیع و عریض ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی تھی اور سیڑھیوں پر بھی حاضرین بیٹھے تھے۔ تقریب کی خاص بات نوجوانوں کی کثیر تعداد میں موجودگی تھی۔ تقریب کے آغاز میں حافظ محمد عمر اشرف نے نہایت خوش الحانی سے قرآن حکیم کی تلاوت کی اور الحاج اختر حسین قریشی نے حضرت خواجہ نصیر الدین نصیر اور امام احمد رضا بریلویؒ کا نعتیہ کلام پیش کیا۔محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے شرکاءکی کثیر تعداد پر اظہار مسرت کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی اجتماع قرار دیا اور کہا کہ ہمارا ایمان ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس کائنات کو اپنے پیغمبر اعظم و آخر ﷺ کے لیے تخلیق کیا۔ لہٰذا نبی کریمﷺ کے امتی ہونے کے ناتے ہمیں رسول مقبول ﷺ کے اسوہ¿ حسنہ پر عمل کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر علامہ اقبالؒ نہ ہوتے تو پاکستان معرض وجود میں نہ آتا اور ہم خدانخواستہ ابھی تک ہندوﺅں کے غلام ہوتے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم کے طفیل ہمیں علامہ محمد اقبالؒ جیسی نابغہ¿ روزگار ہستی عطا فرمائی۔ اگرچہ قائداعظمؒ برصغیر کی مسلم سیاست سے بڑے مایوس تھے اور لندن میں قیام پذیر تھے مگر علامہ محمد اقبالؒ نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بار بار خطوط لکھ کر قائل کیا کہ وہ لندن سے واپس ہندوستان آ کر مسلمانان ہند کی رہنمائی فرمائیں۔قائداعظمؒ نے ان کی بات مان کر آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔اسی شہر لاہور میں 23 مارچ 1940ءکو قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور علامہ محمد اقبالؒ کی دعاﺅں کی بدولت قائداعظمؒ نے صرف سات سال کی قلیل مدت میں پاکستان بنا دیا۔ ہماری کوتاہیوں کے باعث 1971ءمیں دنیا کی یہ سب سے بڑی اسلامی مملکت دولخت ہو گئی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا جہاں آج متحدہ پاکستان کے حامیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 90 سال کے بزرگوں کو 90 سال کی سزائے قید دی جا رہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور حضور پاکﷺ کے فیضان کے طفیل اب پاکستان ایٹمی طاقت کا حامل ایک آزاد ملک ہے مگر اس کے باوجود نجانے کیوں ہمارے حکمران بھارت دیش کی سیر کے خواہش مند ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ ٹماٹر مرغی کے گوشت سے بھی مہنگے ہو چکے ہیں مگر ہم متحد ہو کر ان حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی اور پٹھان بننے کی بجائے صرف اور صرف مسلمان بن جائیں‘ اپنی خودی کو بیچنے کی بجائے قائم رکھیں‘ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے سچے پیروکار بن کر ان کے نظریات و تصورات کے مطابق پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ فلاحی اور جمہوری مملکت بنا دیں۔ اپنے خطاب کے اختتام پر محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے نعرہ¿ تکبیر اور نعرہ¿ رسالت بلند کیا جس کا حاضرین نے فلک شگاف جواب دیا۔ آستانہ¿ عالیہ چورہ شریف کے سجادہ نشین حضرت پیر سید محمد کبیر علی شاہ نے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں کہا کہ علامہ محمد اقبالؒ نے حضرت داتا گنج بخشؒ، حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور دیگر بزرگانِ دین کے مزارات پر حاضر ہوکر اکتساب فیض کیا۔ وہ نبی کریمﷺ کے سچے عاشق تھے اور آپ کے تخیلات اور کردار پر یہی عشق غالب تھا۔ انہوں نے حضور پاکﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ سے متاثر ہوکر ہی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا تصور پیش کیا۔ وہ اس ریاست میں قانون کی ایسی عملداری چاہتے تھے جیسی نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں ریاست مدینہ میں تھی‘ جہاں اگر فاطمہ بنتِ عبداللہ چوری کرتی ہے تو سفارش آنے پر حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو اس کے لیے بھی یہی قانون ہوتا۔ تقریب میں تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین کرنل (ر) جمشید احمد ترین‘نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے چیف کوآرڈینیٹر میاں فاروق الطاف اور جسٹس (ر) آفتاب فرخ نے بھی شرکت کی۔ تقریب کی نظامت کے فرائض نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے انجام دیے۔ دوران تقریب معروف نعت خواں حافظ مرغوب احمد ہمدانی اور جمشید اعظم چشتی نے کلام اقبالؒ پیش کیا۔ تقریب سے جسٹس (ر) بیگم ناصرہ جاوید اقبال‘ بیگم بشریٰ رحمان‘ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ‘ علامہ احمد علی قصوری‘ پروفیسر عطاءالرحمن‘ صاحبزادہ سلطان احمد علی‘ ڈاکٹر اجمل نیازی‘ ولید اقبال ایڈووکیٹ اور پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامرنے بھی خطاب کیا۔ 

ای پیپر دی نیشن