سپرےم کورٹ کے احکامات کی بنا پر بالآخر الےکشن کمےشن نے بلدےاتی انتخابات کے شےڈول کا اعلان بھی کر ہی دےا۔اگرچہ الےکشن کمشنر کی سےٹ کو اےک قائم مقام کی حےثےت سے پُر کےا گےا ہے۔ بہر حال اس انتخابی شےڈول کے مطابق سندھ مےں 27 نومبر اور پنجاب مےں 7 دسمبر کو پولنگ کرانے کا فےصلہ کےا گےا ہے۔ اس انتخابی شےڈول کا اعلان قائم مقام الےکشن کمشنر تصدق حسےن جےلانی کی صدارت مےں ہونیوالے اےک اجلاس مےں کےا گےا۔ الےکشن کمشنر کے علاوہ جن دوسرے ارکان نے اس اجلاس مےں شرکت کی ان مےں نادرا، پی اےس اےس آئی، وزارتِ خزانہ اور صوبائی الیکشن کمشنر بھی شامل تھے۔ جب اس اجلاس مےں شرکت کےلئے تمام متعلقہ اداروں کودعوت دی گئی ہوگی تو انہےں ےہ بھی بتاےا گےا ہوگا کہ ےہ اجلاس کےوں منعقد کےا جا رہا ہے؟ کہنے کا مطلب ےہ کہ اس اجلاس مےں شرےک تمام اداروں نے باہمی رضامندی سے الےکشن کمشنر کی دعوت قبول کی ہوگی۔ اس حوالے سے انتخابی شےڈول کا اعلان کےے جانے کے بعد حکومتی اوراپوزےشن ارکان کا جو ردعمل سامنے آےا اسے حےران کن کہا جا سکتا ہے۔
انتخابی شےڈول سامنے آتے ہی حکومت کی جانب سے جو نےا مﺅقف منظرعام پر آےا وہ کچھ ےوں تھا کہ مقرر کی جانے والی مدت مےں بلکہ ےوں کہےں تو زےادہ بہتر ہو گا کہ محدود مدت مےں بےلٹ پےپر کی چھپا ئی ہی ممکن نہےں ہو سکے گی۔ اس کی وجہ ےہ بےان کی جا رہی ہے کہ 40 کروڑ بےلٹ پےپر کی چھپائی کو اتنی جلدی کےسے ممکن بناےا جا سکتا ہے؟ بظاہر جو کام ناممکن دکھائی دے رہا ہو اُسے ممکن کر دکھانے کے بجائے معذرت سے کام لےنا نسبتاََ زےادہ آسان ہوتا ہے۔ سےکرٹری کابےنہ نے بھی ےہی کےا اُنہوں نے فوراََ معذرت کر لی لےکن ےہ ضروری نہےں کہ ہر بار کی جانے والی معذرت قبول بھی کر لی جائے اس لےے اس مرتبہ الےکشن کمےشن معذرت قبول کرنے کےلئے تےار نہےں اور سےکرٹری کابےنہ سے کہا گےا ہے کہ وہ صرف زبانی معذرت سے کام لےنے کی بجائے تحرےری طور پر جواب دےں اور بےلٹ پےپر کی چھپائی کو مقررہ تارےخ کے اندر ممکن بنائےں۔
سےکرٹری کابےنہ کے بعداب وزےرخزانہ جناب اسحق ڈار بھی ےہ فرمارہے ہےں کہ صرف بےس پچےس دنوں مےں اتنی بڑی تعداد مےں بےلٹ پےپر کی اشاعت ممکن نہےں ہو سکتی ۔ ان کی بات مےں کافی وزن ہے کےونکہ وہ وزارتِ خزانہ کے وفاقی وزےر ہےں اس لےے بھی چھپائی کے عمل اور طرےقہ کار سے بڑی اچھی طرح سے واقفےت رکھتے ہےں ۔جمعرات کو قومی اسمبلی مےں بھی بلدےاتی الےکشن بارے اےک قرارداد سامنے آگئی جسے متفقہ طور پر منظور کر لےا گےا ہے۔ اس قرارداد مےں جن تحفظات کو بےان کےا گےا ہے وہ کچھ ےوں ہےں کہ الےکشن کمےشن کی جانب سے جاری کردہ شےڈول کے مطابق الےکشن کروانا مشکل ہےں۔ اگر انتخابی عمل مےں اتنی جلد بازی سے کام لےا گےا تو پھر اس کی شفافےت کو قائم رکھنا ممکن نہےں ہو سکے گا اور اس پر سوال اُٹھائے جائےں گے۔ عجلت پسندی انتخابی عمل کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے اسے روکا نہےں جا سکے گا۔ اسی قراداد مےں ےہ مطالبہ بھی کےا گےا کہ بلدےاتی الےکشن کرانے کےلئے اےک بار پھر سے مناسب وقت درکار ہے خاص طور پر بےلٹ پےپر کی اشاعت قانون کے مطابق کی جائیگی اورشاےد قانون بےلٹ پےپر کی اشاعت کےلئے نجی پرنٹنگ پرےس کوشرےک کرنے کی اجازت نہےں دےتا۔
ماضی مےں سپرےم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود حکومتےں بلدےاتی الےکشن کے انعقاد سے مختلف حےلوں بہانوں سے اجتناب برتتی رہی ہےں۔ اب دو صوبائی حکومتوں مےں الےکشن کا اعلان کےا گےا ہے وہاں بظاہر اےسا لگتاہے کہ وقت کم دےا گےا ہے۔ جس کے باعث بعض مقامات پر حلقہ بندےوں پر من مانی کی شکاےات بھی سامنے آسکتی ہےں۔ اس ضمن مےں دےگر کئی امور پر سوالات اُٹھائے جا رہے ہےں۔ مثلاََ صوبوں مےں بلدےاتی الےکشن کےلئے مختلف نظام اختےار کےے جا رہے ہےں۔ حالانکہ ہمارے ہاں طوےل عرصے تک اےک ہی نظام بہتر انداز سے چلتا رہا ہے۔ مختلف خانوں مےں تقسےم ہونے کی بظاہر کوئی مضبوط دلےل نظر نہےں آتی۔
بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ فوجی ڈکٹےٹر وں کی طرف سے تو بلدےاتی الےکشن کرائے جاتے رہے اور ان بنےادی اداروں کو عوام سے رابطہ قائم رکھنے کےلئے اہم قرار دےا جاتا رہا ہے لےکن منتخب حکومتوں کی طرف سے مختلف خدشات کی بنا پر بلدےاتی الےکشن کرانے سے گرےز کےا جاتا رہا ہے۔ترقی ےافتہ قوموں کے حکومتی نظام مےں اختےارات کی اوپر سے نچلی سطح تک منتقلی پر بڑا زور دےاجاتا ہے جس سے عام آدمی کے مسائل اس کی دہلےز پر ہی حل ہو جاتے ہےں۔کےونکہ بلدےاتی نمائندوں سے عام آدمی کا روزمرہ کا واسطہ پڑتا رہتا ہے اور ان نمائندوں تک پہنچنا بھی مشکل نہےں ہوتا کےونکہ ان بلدےاتی نمائندوں نے منتخب ہو کر اسلام آباد ےا لاہور جانے کی بجائے انہی گلی محلوں مےں رہنا ہوتا ہے۔ اس لےے بھی ان تک رسائی آسان ہوتی ہے۔
ہماری سےاسی جماعتےں اپنی انتخابی مہم کے دوران تو وعدہ کرتی رہتی ہےں کہ وہ حکومت مےں آنے کے فوراََ بعد بلدےاتی الےکشن کرادےں گی لےکن بعد مےں اور بہت سے ضروری معاملات درمےان مےں آجاتے ہےں جن کی وجہ سے بلدےاتی الےکشن کے شےڈول کی تارےخ کا تعےن ملتوی ہوتا رہتا ہے۔ بظاہرےوں لگتا ہے کہ اگر سپرےم کورٹ کی جانب سے دباﺅ نہ ڈالا جاتا تو بلدےاتی انتخابات کے شےڈول مےں مزےد تاخےر بھی ہو سکتی تھی۔ بلدےاتی الےکشن کے سلسلے مےں صوبوں کی عدم دلچسپی اس سے بھی عےاں نظر آتی ہے کہ ابھی تک ضروری تےاری ، حلقہ بندےاں ، ضابطے اور قوانےن نہےں بنائے جا سکے۔عوامی حلقے ےہ پوچھنے مےں حق بجانب ہےں کہ اگر اپوزےشن اور حکومت کے لئے الےکشن کمےشن کا انتخابی شےڈول ان کےلئے قابلِ قبول نہےں تو پھر انہےں ےعنی حکومت اور اپوزےشن کو باہمی رضامندی کے ساتھ اپنی طرف سے کسی حتمی تارےخ کا اعلان کردےنا چاہےے لےکن اگر ارکان پارلےمنٹ کی جانب سے الےکشن کےلئے کسی حتمی تارےخ دےنے سے گزےر کےا جاتا رہے گا تو عوامی حلقوں مےں پائی جانے والے بے چےنی مےں مسلسل اضافہ ہو تا رہے گا۔
انتخابی شےڈول آنے سے پہلے حلقہ بندےوں کے سلسلے مےں کنٹونمنٹ کے علاقوں مےں بلدےاتی الےکشن کرانے کے حوالے سے بھی تحفظات پےش کےے جا رہے تھے۔ اس بارے چےف جسٹس صاحب نے اپنے فےصلے مےں اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے فرماےا کہ شہری حلقوں کی طرح تمام کنٹونمنٹ اےرےا مےں بھی بلدےاتی الےکشن کروانے لازمی ہےں تاکہ اس احساس کے خاتمے کو ےقےنی بناےا جاسکے کہ کنٹونمنٹ علاقوں مےں کو ئی انوکھی مخلوق بسےرا نہےں کرتی۔ اسی طرح بلدےاتی الےکشن کے حوالے سے اب اےک اور مسئلہ منظرعام پر آےا ہے جو سپرےم کورٹ کی توجہ سے حل ہو سکتا ہے۔وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ بلدےاتی الےکشن کے انتخابی نتائج کے اعلان کے لےے تےن دن کا عرصہ مقرر کےا گےا ہے۔ جب کہ قومی اور صوبائی انتخابات کے نتائج پولنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی آنا شروع ہو جاتے ہےںتو پھر بلدےاتی نتائج کے لےے تےن دن کےوں مقرر کےے جا رہے ہےں اسکے پےچھے کےا راز ہے اس کا پتہ اپوزےشن اور حکومت کی بجائے سپرےم کورٹ ہی لگا سکتی ہے۔قومی اسمبلی مےں اپوزےشن اور حکومتی ارکان کے درمےان بلدےاتی الےکشن کے حوالے سے خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور وہ دنوں اےک ہی صف مےں کھڑے دکھائی دےتے ہےں۔
بلدیاتی انتخابات کا شیڈول: تحفظات اور امکانات
بلدیاتی انتخابات کا شیڈول: تحفظات اور امکانات
Nov 10, 2013