موت برحق ہے‘ جو آیا اسے لوٹ کے جانا ہے‘ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے چلے جانے کے بعد زمانہ مدتوں انہیں یاد رکھتا ہے اور ان کے اٹھ جانے سے معاشرے میں جو خلا پیدا ہوتا ہے‘ وہ خلا ہی رہتا ہے اور اسے کوئی دوسرا پُر نہیں کر پاتا۔ ایسی ایک ہی شخصیت مس خورشید نیازی کی بھی تھی جو چند روز پہلے اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی ہیں۔ جب تک دم میں دم رہا‘ ضرورت مندوں کی جاجتیں روا رکھنا ان کیلئے مقدم رہا۔ سچ تو یہ ہے انہوں نے اپنی زندگی دوسروں کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ وہ جئیں تو دوسروں کیلئے جئیں۔ نوے سال کی بھرپور زندگی گزار کر وہ اللہ کو پیاری ہوئی تو ساری زندگی خدمتِ خلق میں ہی گزار دی اور یہ میں اس لئے جانتا ہوں کہ وہ میری خالہ زاد بہن تھیں اور میں انہیں آپا کہہ کر مخاطب کرتا۔ وہ عمر میں مجھ سے دس سال بڑی تھیں‘ لیکن ہمارے درمیان ایک گہری دوستی کا سلسلہ بھی برقرار رہا۔
وہ کہا کرتی تھیں کہ جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی تو وہ کالج میں پڑھ رہی تھیں اور ایک طلباءتحریک میں اپنے بھرپور حصہ لیا۔ 1947ءمیں جب وہ گریجوایشن کر چکیں اور اس وقت صوبہ سرحد کا پاکستان میں شامل ہونے یا نہ ہونے کیلئے ریفرنڈم کا مرحلہ پیش آیا‘ تو وہ ان دنوں بھارت کے شہر انبالہ میں تھیں کہ ان کے والد خان غلام محمد خان نیازی سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں وہاں مقیم تھے۔ اس سے پہلے وہ پشاور میں تعینات رہے تو وہاں کی انتخابی فہرستوں میں ان کے ووٹ بھی درج تھے۔ آپا خورشید کو جب اس کا پتہ چلا تو وہ اپنے سب گھر والوں کو ساتھ لیکر انبالہ سے پشاور پہنچیں اور اس ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے اور یوں پاکستان کی بنیادوں میں اپنا حصہ ڈالا۔ پھر جب وطن عزیز پاکستان معرض وجود میں آگیا تو وہ انبالہ سے ہجرت کرکے لاہور پہنچیں اور پھر عمر بھر پاکستان اور نظریہ پاکستان سے اس طرح جڑی رہیں جیسے اسے قائم و دائم رکھنا انہی کی ذمہ داری ہو تو ان کی انہی خدمات کے صلہ میں حال ہی میں ادارہ تحریک کارکنان نظریہ پاکستان کی طرف سے انہیں میڈل دینے کا فیصلہ کیا اور وہاں کے کچھ دوست پھول لئے انہیں یہ خوشخبری دینے کیلئے ان کے گھر پہنچے تو وہ زندگی کی آخری سانسیں گن رہی تھیں۔ اپنے تاثرات کا کچھ بھی اظہار نہ کر سکیں اور اس کے چند روز بعد وہ راہی ملک عدم ہوئیں تو اس لئے تو وہ انہیں دختر پاکستان کا نام دیتے تھے۔پاکستان کے معرض وجود آتے ہی مس خورشید نیازی نے تحریک پاکستان کی معروف خاتون بیگم جی اے خان کے ساتھ مل کر پاکستان میں گرل گائیڈز کی تعلیم کی بنیاد ڈال کر اسے مستحکم اور فعال کیا اور اس کی بین الاقوامی سطح پر شناخت کرائی۔ اس کے صلہ میں انہیں اس تنظیم کے اعلیٰ ترین میڈل شاہین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی طرح خواتین کی ایک بڑی آرگنائزیشن کی طرف سے انہیں ”لائف ٹائم اچیومنٹ“ کا ایوارڈ بھی ملا مجھے یہ بھی یاد ہے کہ باغ جناح میں 1921ءسے ایک قدیم لیڈیز کلب کو اس وقت کے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی نے مخصوص حالات کے پیش نظروہاں سے نکالنے کے احکامات جاری کئے تو ان کے ان نامناسب‘ جابرانہ احکامات کے سامنے دیگر خواتین کو ساتھ لیکر وہ دیوار بن کر کھڑی ہو گئیں کہ وزیراعلیٰ کو مجبوراً یہ احکامات واپس لینے پڑے۔ رشتے میں مس خورشید نیازی‘ تحریک پاکستان کے معروف کارکن اور سینئر سیاستدان امیر عبداللہ خان روکھڑی کی بیگم‘ ممتاز بیگم کی چھوٹی بہن تھیں۔ ممتاز بیگم اگرچہ عمر میں ان سے بڑی تھیں اور ان کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھیں‘ لیکن زیادہ تر وہ خاتون خانہ تک محدود تھیں تو اسی چھوٹی بہن نے انہیں گھر سے نکالا اور سماجی اور فلاحی کاموں کی طرف مائل کرکے متحرک اور فعال کیا اور پھر دونوں بہنوں نے بے شمارسماجی کام کئے اور حاجت مندوں کی جاجتیں روا کیں۔آپا خورشید نے نیو خان ٹرانسپورٹ سروس میں کچھ حصہ ڈال رکھا تھا جو کچھ وہاں سے آتا‘ اللہ کی راہ میں مستحق غریبوں کے نذر کر دیتیں۔ لاہور میں شاید ہی کوئی ایسا فلاحی یا رفاہی ادارہ ہو جس کی کسی نہ کسی صورت میں مدد نہ کی ہو۔ وہ سراپا خدمت ہی تھیں۔عام طورپر وہ ایسی مصروفیتوں کو مخفی رکھتیں‘ لیکن اکثر ضرورت مندوں کی ضرورتیں پورا ہونے پر ان کی طرف سے ملنے والی دعاﺅں سے یہ راز کھل ہی جاتا۔ہمارے ایک مشترکہ ماموں زاد بھائی خاور نیازی‘ جو ایسے کاموں میں ان کے بہت قریب رہے‘ بتاتے ہیں ایک دفعہ ازراہ تفنن میں نے ان سے کہا کہ آپا آپ جو صبح سے رات گئے تک ان فلاحی کاموں میں اپنا وقت صرف کرتی ہیں‘ اگر یہی وقت آپ اپنے ذاتی کاروبار میں صرف کرتیں‘ بے پناہ دولت کما سکتی تھیں۔ اس پر ان کا جو جواب آیا‘ آج بھی اسی طرح میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ کہنے لگیں۔ ”میرے بھائی: مخلوق خدا کے کام آکر جو سکون اور شادمانی مجھے ملتی ہے اس کی لطف صرف میں ہی جانتی ہوں اور پھر میرا رب مجھے اتنا کچھ بغیر میری محنت کے دیدیتا ہے جس سے میں مخلوقِ خدا کی ضروریات پوری کرتی رہتی ہوں تو اس سے بڑھ کر مجھے اور کیا چاہئے۔“ سچ تو یہ ہے‘ وہ اپنے عہد کی مدر ٹریسا ہی تھیں اور اب جب وہ ہم سے دور بہت دور جا چکی ہیں تو میں ایک بار پھر یہی کہنے پر مجبور ہوں....
ایسا کہاں سے لائیں‘ تجھ سا کہیں جسے