عرفی تو من دیش زغوغائے رقیباں

Nov 10, 2014

قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو تندہی سے اپنے آپ کو بہتر کرنے میں مصروف رہیں ۔اقوام عالم پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے حال کو بہتر کیا اور اپنے مستقبل کو ایسے ترتیب دیا کہ سب انہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کسی بھی کام میں بہتری کے لیے ایک خاص وقت درکار ہوتا ہے۔ انسان اگر اپنی اصلاح کرنے بیٹھے تو پہلا قدم اٹھاتے اٹھاتے ہی ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں۔ بہت سی خواہشات کو پسِ پشت ڈالنا پڑتا ہے اور مشقت کا کڑوا گھونٹ بھی بھرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے کامیابی ہر انسان کا مقدر بھی نہیں بنتی۔ بعض لوگ حالات اور قسمت ہی کو کو ستے ہوئے عمر گزار دیتے ہیں اور بالآخر مایوسی کی چادر اوڑھ کر اس دنیا سے ناکام لوٹ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس بعضے ایسے بھی ہیں جنہوں نے ہواوٗں کے مخالف رخ کے باوجود ایسے سفر طے کیا کہ کامیابی خود ان کو ڈھونڈتے ہوئے ان کے پاس آگئی۔ انسان کا مقدر کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو ، وہ اس وقت تک کا میاب نہیں ہو سکتا جب تک اس میں قوت ارادی، آگے بڑھنے کی لگن اور محنت کرنے کا جذبہ نہ ہو۔ کامیابی کے حصول کے لیے ایک اور بات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ ہے درست سمت کا تعین۔ آپ غلط سمت میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے بھی کچھ حاصل نہیں کرسکتے ،چاہے آپ میں کتنی ہی حوصلہ مندی کیوں نہ ہو۔ یہی حال ہمارے یہاں ہونے والے دھرنوں کا ہے۔ گزشتہ ڈھائی ماہ سے اسلام آباد میں جو ڈرامہ رچایا جارہا ہے اس کی کہیں اور نظیر نہیں ملتی۔ یہ اچھا ہو ا کہ طاہرالقادری کو کسی نے سمجھادیا کہ میاں آپ غلط سمت میں جارہے ہیں، اب بھی واپسی کا رستہ پکڑلو۔ چنانچہ انہوں نے نسبتاً فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب وہی طاہرالقادری ہیں جو الیکشن میں حصہ لینے پر مائل ہیں۔ اپنی پارٹی کو انتخابی جماعت بھی بنالیا اور آئندہ بلدیاتی الیکشنوں میں حِصہ لینے کا اعلان بھی کردیا۔ کہتے ہیں کہ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ پاکستان عوامی تحریک کو اگر اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے تو ہمیں انہیں حقیقی دنیا میںخوش آمدید کہنا چاہئیے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد مین عمران خان اکیلے رہ گئے ہیں۔ وہ یہاں کامیابی حاصل کرنے آئے تھے۔ نواز حکومت کے خلاف۔اب تک ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اِن سے سوال یہ ہے کہ وہ کب تک اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لیے ملکی معیشت اور نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلتے رہیں گے۔ یہ بات درست ہے کہ ان کی فالورشپ ضرور ہے، ہر سیاسی پارٹی کی ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ بات انہیں زیب دیتی ہے کہ اپنے ووٹرز کے جذبات اور مینڈیٹ کے ساتھ کھلواڑکرتے رہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ چیرمین تحریک انصاف عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے آواز اٹھاتے اور اپوزیشن اور حکومت مل کر ملک کو سیدھے رستے پر گامزن کرتے۔ مگر آپ تو منزل سے دوری کی جانب رواں دواں ہیں۔ حکومت میںہزار خامیاں ہوں گی۔ لیکن یہ کون سا طریقہ ہے کہ ننھے بچوں کی طرح ضد کرکے بیٹھ جایا جائے اور یہ بھی نہ بتایا جائے کہ میں کیسے مانوں گا۔ عمران کو اگر کامیابی چاہیے تو انہیں پارلیمنٹ میں اپنی آواز بلند کرنا چاہیے تھی ایسے وہ اپنی بچی کھچی ساکھ بھی ختم کر رہے ہیں۔ یہاں وزیراعظم کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے۔ وہ بھی انسان ہیں ، ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن جن حالات میں انہوںنے ملک کی باگ ڈور سنبھالی، اس سے بہتر پر فارم کرنا شاید ممکن نہ تھا۔ نوازشریف کو روز کنٹینر پر بدتہذیبی سے مخاطب کیا جاتا ہے لیکن ن لیگ کے سربراہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایک بڑا آدمی ہے۔ لفظی باتوں میں کیا رکھا ہے ۔ جواب ادھر سے بھی آسکتا ہے لیکن یہ لوگ ملک چلانے آئے ہیںنہ کہ ہر الٹی سیدھی بات کا جواب دینے ۔ نواز شریف تنقید کو خوش دلی سے برداشت کر رہے ہیں۔ اور انہیں کرنا بھی یہی ہوگا۔ بھئی ملک کے وزیراعظم ہیں، پورا پاکستان آپ نے چلانا ہے ۔ بعض اشتعال انگیزیوں سے درگزرکرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ کامیابی کا حصول تبھی ممکن ہے اگر سمت درست ہو۔ میرا خیال ہے کہ اب بھی وقت ہے، ہمارے قومی رہنماوں کو اس بات کا احساس ہو جانا چاہئیے کہ ملکی ترقی کا راستہ روکنے میں کسی کا مفاد نہیں۔ اس چیز کو کامیابی نہیں ، ہٹ دھرمی میں شمار کیا جاتا ہے۔ کون سی سیاسی جماعت ہے جو آپ کے ساتھ ہے؟ چاہے دائیں بازو سے تعلق ہو یا بائیں بازو سے واسطہ، کوئی بھی تو آپ کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔خدارا اس ملک پر رحم کریں ۔ آپ غلط سمت میں جارہے ہیں، واپس لوٹ آئیے۔ اس حکومت نے پر فارم نہ کیا تو آپ کو 2018 میں موقع مل سکتا ہے۔ اس کے لیے محنت کریں۔

مزیدخبریں