اےک فعال اور کامےاب جمہوری نظام مےں عوامی رائے کلےدی کردار کی حامل ہوتی ہے۔ جمہوریت کی بہت ہی جامع اورمشہور زمانہ تعریف کے مطابق۔
IT IS THE GOVT OF THE PEOPLE, BY THE PEOPLE & FOR THE PEOPLE ےعنی یہ وہ طرز حکومت ہے۔ جس مےں اصل طاقت مجموعی طور پر عوام کی ہے۔ اس کو عوام اپنے نمائندﺅں کے وساطت سے چلاتے ہیں اور یہ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرتی ہے اور اس مےں سب کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
اےک Classic ےعنی مستندد جمہوری نظام کے تین ستون انتخاباب، عوام کی فلاح وبہبود کی ضمانت اور حکومتی کارکردگی کے بارے مےں جواب دہی ہےں۔ لےکن جب ہم اپنے ملک مےں جمہوری حکومت کی کار کردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھ کر بے حد افسوس اور مایوسی ہوتی ہے کہ ےہاں جمہوریت کے نام دراصل پر مطلق العنانی اور آمریت قائم ہے ۔ کےونکہ ملک کی آبادی کے بہت بڑے حصے کو بنیادی ضروریات کی اشےاءبھی میسر نہےں جب کہ ہمارے حکمران ایسی ایسی سہولیات سے لطف اندوز ہوتے ہیں جن کا ایک آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور وہ تمام مراعات اور سامان آسائش کے لیے عوامی پیسے کا بے دریغ استعمال کےا جاتا ہے۔
انہوں نے اپنے لیے بڑے بڑے محل جو سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل ہےں تعمیر کئے ہوئے ہےں۔ لےکن کسی بھی ملک مےں اونچی اونچی فصیلوں مےں گھری ہوئی پر تعش عمارتیں اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ ملک مےں انتشار کی صورت حال برقرار ہے۔ اسی ملک مےں وہ وقت بھی تھا جب عام لوگ آزادی سے ہوٹلوں اور پارکوں مےں گھوم پھر کر زندگی کا مزہ اُٹھاتے تھے۔
رات کو لوگ اطمینان اور سکون سے کھلی جگہوں پر سوتے تھے۔ لےکن ےہ تمام نعمتیں ہم سے 1980ءمےں پہلا بم دھماکہ ہونے کے بعد چھےن گئےں۔ ملک مےں امن وامان کی نا گفتہ بہ صورت ِحال کے باوجود ہمارے سیاسی رہنما سب اچھا کی رٹ لگائے رکھتے ہیں جب کہ ”سب اچھا“ نہےں ۔وہ خود تو بلٹ پروف گاڑیوں مےں جو کہ عوام کے پیسے سے خریدی گئی ہےں با حفاظت گھومتے پھرتے ہیں۔ اُن کی حفاظت کو مزید یقینی بنانے کی غرض سے 10سے 12 گاڑیوں مےں سوار مسلح افراد اُن کے ساتھ چلتے ہیں۔ نیز اُن کے لےے ہر قسم کی ٹرےفک جن مےں ایمبو لنس بھی شامل ہیں روک دی جاتی ہےں۔ جس کے نتیجے مےں لوگ اپنی جانیں گنوا بےٹھتے ہیںاور حاملہ عورتیں رکشوں میں تولید کے مراحل سے گزرتی ہےں ۔ ان انگنت مسائل سے ہمارے So Called یعنی نام نہاد عوامی نمائندے مکمل طور پر لا تعلق رہتے ہوئے صرف اپنی تجوریاں بھرنے، بیرون ملک بڑے بڑے کاروبار چلانے، مہنگی جائیدادیں بنانے اور وہاں کے بینکوں مےں پیسے جمع کرنے مےں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ۔
غرےب عوام سے ٹیکسوں کی صورت مےں حاصل شدہ دولت پر ان کا مکمل قبضہ رہتا ہے اور وہ کسی صورت میں ملکی وسائل کو عوامی بہبود اور فلاح کے لیے استعمال مےں لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ نےز عوام پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے وہ پولیس یا فوج کو استعمال کرتے ہیں ۔
اس کی تازہ ترین مثال پچھلے دنوں ماڈل ٹاﺅن لاہور مےں پرامن اور نہتے مظاہرین پر گولےاں چلانا اور اُن کا خون کرنا ہے۔ اور اس بیہمانہ قتل وغارت کے ذمہ دار حکومتی افراد ابھی تک دندناتے پھر رہے ہےں اور انصاف کے تمام تقاضوں کو بلا طاق رکھ دےا گےا ہے۔
جہاں تک جمہوریت کے ایک اہم ستون Accountability ےعنی جواب دہی کا تعلق ہے تو اس کا ملک مےں سرے سے نام ونشان موجود نہےں ہے۔ اگر کوئی دولت مند اور بااثر شخصیت جب بد عنوانی ےا کسی اور جرم مےں ملوث پائی جاتی ہے تو اُسے کچھ عرصے کے لیے عوام کی نظروں سے اُوجھل کر دےا جاتا ہے اور بعد مےں کسی اور اہم عہدے پر فائز کر دےا جاتا ہے۔
جہاں تک ہمارے لیڈرز کا تعلق ہے تو وہ اپنی کارکردگی کی جواب دہی کے سلسلے مےں جو منطق پےش کرتے ہےں وہ یہ ہے کہ وہ صرف عوام کو جواب دہ ہیں یعنی ایک دفعہ اقتدار مےں آنے کے بعد 5سال تک وہ ہر قسم کی جواب دہی سے مبرا ہیں۔ جب کہ ہماری مذہبی رواےات اس کے مکمل طور پر برعکس ہےں۔ مثلاً حضرت عمرؓ جیسے سخت گیر حکمران سے اےک شخص نے سر عام پوچھا کہ مال غنیمت مےں سب کو اےک اےک چادر ملی تھی لیکن آپ کا لباس 2چادروں سے بنا ہوا ہے آپ نے دوسری چادر کیوں لی ۔
جواباً انہوں نے بتایا کہ دوسری چادر اُنہےں اُنکے بےٹے نے دی ۔ موجودہ دور مےں اس قسم کی جواب دہی کا تصور بھی نہےں کےا جاسکتا۔
یہاں ایک ارجمند نامی شخص کو سینٹر رحمان ملک نے صرف اس جرم کی پاداش میں نوکری سے فارغ کروایا۔ کہ اُس نے پی آئی اے کی پرواز کو سینٹر کے آنے کے انتظار مےں دو گھنٹے تک رن وے کھڑا رکھنے پر احتجاجاً اُن کو جہاز مےںداخل ہونے سے روک دیا تھا۔
قارئین! ملک ِعزیز مےں 60سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی جمہوریت جڑ نہیں پکڑ سکی۔ ہمارے سیاسی عمائدین انتخابات جیتنے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ وہ پیسہ پانی کی طرح بہا کر ایوان نمائندگان تک پہنچ جاتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد لوٹ مار کو اپنا قانونی حق سجمھ کر عوام کو لُوٹتے ہیں اس کی ایک اور واضح مثال ملک مےں بلدیاتی اداروں کی بحالی کے سلسلے میں تمام سیاسی پارٹیوں کی ملی بھگت ہے ۔ وہ اقتدار کسی بھی قےمت پرGRASS ROOT LEVEL میں دئیے جانے کو تیار نہیں کیونکہ اس طرح اربوں روپے کے فنڈ زایم این اے اور ایم پی اے حضرات کو بانٹے جاتے ہےں جو کہ اُن کی تجوریوں مےں منتقل ہو جاتے ہیں یا پھر بےرونی ممالک کے بنیکوں میں جمع ہوتے ہےں۔
ہمارے تمام مسائل کاحل سماجی برابری، انصاف کی ہر دہلےز پر فراہمی ،حکمرانوں کی جواب دہی میں مضمر ہے۔ جس کا سبق ہمارے مذہب اسلام نے 1400سال پہلے دیا تھا۔
مگر ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے ہم اپنی درخشندہ روایات کو مکمل طور پر فراموش کر چکے ہےں اور مال و دولت کا حصول ہمارا اوڑھنا اور بچھونا بن چکا ہے اصلاح احوال کے لیے ضروری ہے کہ ہم انتخابات میں ذات برادری، پےسے اور علاقائی وابستگیوں کی بنیاد پر ووٹ دینے سے اجتناب کریں اور صرف محب وطن ، قابل اور ایمان دار لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلوں تک بھیجےںورنہ اگر موجودہ صورت حال قائم رہے گی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ جس کے ہم متحمل نہےں ہو سکتے۔