”کس کے سر جائے گا یا رب یہ تمناﺅں کا خوں....؟“

Nov 10, 2014

بشری رحمن

یہ جو ملک کے اندر یکایک عوام میں بیداری پیدا کرنے کی لہر اُٹھی ہے اور ہر معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لینے کا ڈنکا بج اٹھا ہے‘ اس کا بھی کوئی اصول اور قاعدہ ہونا چاہئے۔ بیداری کا مطلب یہ نہیں کہ جس کا دل چاہے قانون ہاتھ میں لے لے‘ جس کا دل چاہے کسی کی جان لے لے۔
کسی بھی معاملے میں حق کی آواز بلند کرنے سے پہلے ہر شخص کو سوچنا چاہئے کیا وہ اپنا فرض خوش اسلوبی سے ادا کر رہا ہے‘ سزائیں دینے کیلئے عدالتیں ہیں۔ قانون کی ترجمانی کیلئے وکلاءہیں‘ پھر بعض بندوں کا آپے سے باہر ہونا سمجھ سے بالاترہے۔ جی ہاں آپ کو غصہ ہے‘ آپ نے ڈاکوﺅں کو پکڑ کے مارنا شروع کر دیا۔ ڈاکوﺅں پر مغضوب الغضب ہونا قدرتی امر ہے مگر کیا اس عوامی چھترول سے آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ اس کی جان چلی جائے گی مگر جزا اور سزا کا عمل تشنہ رہ جائے گا۔ اس ضمن میں شرمناک ترین واقعہ کوٹ رادھا کشن میں ہوا۔ اس اندوہناک اور غیر انسانی عمل نے پاکستان کو ساری دنیا میں بدنام کیا اور اسلام پر بھی حرف آیا۔ اگر دونوں پارٹیاں ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتی ہوتیں تو اس واقعہ کو کوئی اور رنگ دیا جاتا۔ اب پوری دنیا جان بھی گئی ہے کہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی شہزاد اور شمع نے بھٹے کے مالک سے ایڈوانس رقم لے رکھی تھی مگر کام چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ معاہدے کی نفی کرکے!
بھٹے کے مالک کو طیش آیا ہوگا اور اس نے انہیں مزہ چکھانے کا بھی سوچا ہوگا مگر اس قدر سفاکانہ مجرمانہ اور غیر انسانی عمل نہیں۔ دنیا کا کوئی مذہب‘ کوئی ملت‘ کوئی کمیونٹی کسی انسان کو زندہ جلانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ہر مذہب میں یہ حیوانی اور ناقابل معافی جرم ہے۔
کچھ سال پہلے انڈیا کے گجرات میں نریندر مودی کی حکومت نے 18 مسلمانوں کو ایک کمرے میں بند کرکے زندہ جلوا دیا تھا۔ تاریخ کے صفحات پر ابھی تک وہ کالک لگی ہوئی ہے۔ اب پورے پاکستانیوںکا دل ان مظلوم زندہ جل جانے والے میاں بیوی کیلئے خون کے آنسو رو رہا ہے اور اہل انصاف سے پوچھتا ہے کہ پاکستان کے دامن پر لگی ہوئی یہ کالک وہ کیسے دھوئیں گے۔ کب دھوئیں گے۔ مجرموں کو قرارواقعی سزا دینے والے‘ انکوائری بٹھانے والے‘ تلافیاں پیش کرنے والے اور اصل بات کی تہہ تک پہنچنے والے کب دنیا کے سامنے مکمل تصویر پیش کریں گے اور اس بات کا تدراک کیسے کریں گے کہ وہ بدبخت لوگ جو اپنے ذاتی مفاد کیلئے غیر مسلموں پر ہر سنگین الزام لگا کے اپنے نفس عمارہ کی تسکین کرتے ہیں۔ ان کی سزا کیا ہو؟ ان پر قذف لاگو ہو کہ نہیں؟.... اسلام کو بدنام کرنے کی سزا کیا ہو؟ بہت باریک بینی سے اس معاملے کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے۔ میڈیا کے شور وغل نے جو خاک اُڑائی ہے‘ وہ اہل اقتدار کے سر پر بھی پڑی ہے۔ مظلوم خاندان کی داد رسی کیسے ہوگی؟ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کیسے کی جائے گی۔ آئین کی شق نمبر 295کی ترجمانی کرنے کا حق صرف قانون دان اور قانون ساز اداروں کو ہوگا۔ کوئی جاہل مجہول خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو‘ اس شق کی ترجمانی کا حق اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔
قائداعظم محمد جناح نے اقلیتوں کے بارے میں صاف کہہ دیا تھا کہ:....
(14 جولائی 1947ءکی تقریر کا اقتباس) .... پاکستان میں اقلیتوں کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتی ہوں۔ ان کا مذہب ‘عقیدہ اور ایمان پاکستان میں بالکل سلامت اور محفوظ رہے گا۔ ان کی مذہبی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ ان کے مذہب‘ عقیدے‘ جان و مال اور ان کی ثقافت کا مناسب تحفظ کیا جائے گا۔ وہ بلا لحاظ رنگ و نسل ہر اعتبار سے پاکستان کے شہری ہونگے۔“
ایک طرف تو دہشت گردوں کی نسلوں کو مٹانے کیلئے آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے‘ دوسری طرف واہگہ بارڈر کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔
کمال ہے‘ میڈیا خبریں نشر کر رہا تھا اور وزیرداخلہ فرماتے ہیں‘ انہوں نے پنجاب حکومت کو خبردار بھی کردیا تھا تو کیا پنجاب حکومت وزیرداخلہ کی وارننگ کو محض ایک مذاق سمجھ رہی تھی یا لطیفہ سمجھ کر مسکرارہی تھیں۔ 62 معصوم شہریوں کی موت ان کیلئے کوئی معانی نہیں رکھتی اور جو سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ان کا انجام کیا ہوگا۔ حیرت ہوتی ہے متعلقہ اداروں کے بے حسی پر .... اگر جہاز کے اندر کسی مبینہ دہشت گرد کی جھوٹی خبر اُڑا دی جائے تو جہاز روک لیا جاتا ہے۔ مسافر اتار دیئے جاتے ہیں۔ یہاں افواہ گردش کر رہی تھی مگر حکومت کے علاوہ کوئی بھی ادارہ یہ ذمہ داری محسوس ہی نہیں کر رہا تھا۔ قبول کرنا تو دور کی بات ہے۔ یہ تو بتائیں یہ معصوم لوگ جو شہید ہو گئے‘ ان کو شہیدوں کی کونسی صف میں رکھیں گے۔ کیا یہ پاکستان کی خاطر شہید نہیں ہوئے؟ کیا انہوں نے پاکستان کی محبت میں جانیں نہیں دیں۔ کیا ان شہیدوں کے غمزدہ لواحقین نے ان کی جانوں کے عوض خزانے مانگے ہیں۔ سلطنت مانگی ہے یا تخت مانگا ہے یا ان کے عزیزواقارب نے بڑے بڑے جلسے کرکے چلا چلا کر کہا ہے کہ ہمارے عزیزوں نے پاکستان کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ ہمارا اس قوم پر دوہرا احسان ہے‘ ہمیں اب حکومت کرنے کا حق دیدو۔
کیا شہادت کا صلہ صرف ایک ہی خاندان کیلئے مخصوص ہے؟ اس پاکستان میں آئے دن ملت کی ناموس کی خاطر‘ عسکری اور غیر عسکری اصحاب شہید ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی شہادت کا لہو پاکستان کے استحکام کی تاریخ رقم کرتا رہتا ہے مگر ایوان اقتدار کے اندر پلنے والوں نے ایک بار بھی اٹھ کر ان شہیدوں کوخراج پیش نہیں کیا جو محض پاکستان سے اظہار محبت کرنے کیلئے نعرے لگانے کیلئے تالیاں بجانے کیلئے اور پاکستان کا جھنڈا دیکھ کر فخر سے سربلند کرنے کیلئے وہاں گئے تھے.... اے شہیدوں کی فہرست گنوانے والو! اس فہرست میں ان معصوم شہیدوں کا نام بھی شامل کر لو۔
جو بات قابل غور ہے‘ وہ یہ کہ واہگہ بارڈر کو سوچے سمجھے بنا راہ داری بنا دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ اٹاری سے لدے ہوئے ٹرکوں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار اس طرف آتی دکھائی دیتی ہے مگر واہگہ بارڈر سے اس طرف صرف چند ٹرک جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان پر بھی افغانستان کا نام لکھا ہوتا ہے۔ یہ مال برداری یہ آنا جانا یہ بارڈر کھول دینا کن شراط پر ہے۔ کن اصولوں پر ہے۔ ہم نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ ان لدے ہوئے بھاری بھرکم ٹرکوں میں کیا ہوتا ہے۔ کسی نے جانچ پڑتال کی کبھی.... اسلحہ آتا ہے کہ دہشت گردی کا منصوبہ آتا ہے۔ کون اتنا وقف حال تھا کہ اس نے اس مقام پر دہشت گردی کی جرا¿ت کر لی۔ سینٹرل ایشیا کیلئے بھارت کو راہ داری درکار ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کی اپنی مصنوعات تباہ ہو جائیں۔ یہ محض بھارتی مصنوعات کی ایک منڈی بن کر رہ جائے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے پہلے ہی پاکستان کی انڈسٹری کو تباہ کر دیا ہے۔ لوگ کیا کریں‘ کدھر جائیں‘ کیا اپنے ہی ملک میں خوشی منانے کا انہیں کوئی حق نہیں دیا جائے گا۔
عجیب ملک ہے ہمارا.... حکمران آرام سے باہر چلے جاتے ہیں اور پھر بھی یہ ملک چلتا رہتا ہے۔ جس حکمران کا جی جدھر جانے کو چاہتا ہے‘ وہ وہاں تشریف لے جاتا ہے۔ ملک پھر بھی چلتا رہتا ہے۔ ان کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہاں تھر میں بلا کا قحط پڑا۔ انسان سسک کر مرنے لگے مگر وہاں تو ثقافت کا جشن منانے کیلئے اربوں روپے خرچ ہوگئے۔ مرتے ہوئے بچوں کے منہ میں کسی نے پانی بھی نہیں ڈالا۔ گندم کی بوریوں میں کیڑے پڑ گئے‘ فاقہ زدوں کے منہ نہ لگی....
بے حسی کی کوئی قسم ہو تو ہم آپ کو بتائیں.... یہاں تو تخت و تاج کیلئے کبڈی.... کبڈی .... میچ ہی ہوتا نظر آتا ہے....
تیرا ملک کیسا ہے اے خدا یہاں نہیں نصیب جلوں کی جا
کہیں حکم ہے کہ سحر نہ ہو کہیں حکم ہے کہ اذاں نہ ہو!

مزیدخبریں