میانمار میں تاریخی الیکشن:سوچی پارٹی کا 70 فیصد سے زائد سیٹیں جیتنے کا دعوی

Nov 10, 2015

ینگون (بی بی سی + اے ایف پی+ اے پی پی) میانمار میں حزب اختلاف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سربراہ آنگ سان سوچی نے ملک میں 25 سال بعد ہونے والے آزادانہ انتخابات کے نتائج کے سرکاری اعلان سے قبل دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ این ایل ڈی کے ایک ترجمان ون تھین نے گزشتہ سہ پہر اعلان کیا کہ ان کی جماعت کو 70 فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ ملک سے طویل آمریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ این ایل ڈی کی سربراہ آنگ سان سوچی نے کہا ’آپ سب کو انتخابی نتائج کا اندازہ تو ہو ہی گیا ہے۔ اب تک صرف ینگون شہر کی 12 نشستوں کے نتائج کا اعلان ہوا ہے اور ان تمام نشستوں پر این ایل ڈی کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ٹرن آؤٹ 80 فیصد رہا ۔ فوجی کی حمایت یافتہ یونین سولیڈیرٹی ڈویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) 2011 سے اقتدار میں ہے۔ میانمار میں این ایل ڈی کے ایک ترجمان نے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے کہا کہ ’ہم 70 فیصد سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کر رہے ہیں لیکن الیکشن کمشن کو ابھی نتائج کا اعلان کرنا ہے۔‘ حکمران جماعت یو ایس ڈی پی کے قائم قام چیئرمین تہے اؤ نے کہا وہ اپنی نشست ہار گئے ہیں اور اس نشست پر این ایل ڈی کے امیدوار نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس سے باقی نتائج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شکست کی وجہ معلوم کرنا ہے۔‘ انھوں نے اپنی ناکامی کا بغیر کسی تحفظ کے اعتراف کیا اور کہا کہ حتمی نتائج کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔ سوچی نے ینگون میں پارٹی ہیڈکوارٹر کے باہر حمایتیوں سے خطاب کرتے ہوئے صبر اور تحمل کی تلقین کی۔ برما میں آئین کے مطابق منتخب اسمبلی میں ایک چوتھائی نشستیں فوج کے لیے مختص ہیں اور این ایل ڈی کو ایوان میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے لیے جن نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں ان میں دو تہائی پر کامیابی حاصل کرنا ہو گی۔ بی بی سی کے مطابق شہری علاقوں میں حمایت رکھنے والی جماعت کے لیے مشکل کام ہے کہ وہ دیہی علاقوں میں بھی کامیابی حاصل کرے جہاں اقلیتی فرقوں کی جماعتیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ادھر امریکہ نے پہلے پارلیمانی انتخابات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو مکمل طور پر جمہوری بنانے کیلئے بنیادی ڈھانچے اور نظام کی مختلف رکاوٹوں کو ہٹانا ہو گا۔ وزیر خارجہ جان کیری نے کہا اگر ووٹوں کی شرح زیادہ رہی تو حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی کی جماعت کامیاب ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک پر عشروں تک فوجی اقتدار رہا تاہم پارلیمانی انتخابات کا انعقاد جمہوریت کی جانب اہم قدم ہے۔ فوجیوں کیلئے بڑی تعداد میں پارلیمانی نشستوں کی تخصیص، اقلیتوں کو نظر انداز کرنا باالخصوص روہنگیا مسلمانوں کے امیدواروں کو نااہل قرار دینا اور اس قسم کے بعض دوسرے معاملات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں