بھارتی عوام کا مودی سرکار کی پاکستان اور مسلم دشمنی پر مبنی پالیسیوں کو ریاستی انتخابات میں ٹھینگا اور ہمارے حکمرانوں کیلئے سبق
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی انتہا پسند جماعت بی جے پی کو نئی دہلی کے بعد ریاست بہار کی اسمبلی کے انتخابات میں بھی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جو مودی کے لئے بہت بڑا دھچکا ہے تاہم انہوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ بہار کے 243 کے ایوان میں مودی کی قوم پرست پارٹی اور اس کے اتحادیوں کو صرف 58 نشستیں حاصل ہو سکیں۔ جبکہ ان کے مدمقابل بہار کے سابق وزیراعلیٰ نتیش کمار، لالو پرشاد اور کانگریس کے گرینڈ الائنس ”جنتا دل“ کو 178 نشستیں حاصل ہو گئیں جو ایوان کی دو تہائی اکثریت ہے۔ اس انتخاب میں بی جے پی کی اپنی صرف 53 نشستیں ہیں جو اس امر کا بین ثبوت ہے کہ بہار کے عوام نے مودی کی انتہا پسند پالیسیاں یکسر مسترد کر دی ہیں چنانچہ پاکستان دشمنی اور گائے کارڈ بھی ان کے کسی کام نہ آیا۔ انہوں نے بہار میں اپنی پارٹی کو کامیابی دلانے کے لیے ریکارڈ 30 انتخابی جلسے کیے اور مسلم دشمنی کے جذبات ابھارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر بہار کے عوام نے ان کو اس انتہا پسندانہ سوچ کی بنیاد پر ٹھینگا دکھا دیا اور ان کے ہندو ازم کے بھوت کی بھی خوب ٹھکائی کی۔ اس انتخاب کے نتیجہ میں دو بار وزیراعلیٰ رہنے والے نتیش کمار کی بطور وزیراعلیٰ تیسری ٹرم کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے جن کی پاکستان کے ساتھ سازگار دوستانہ تعلقات کی خواہش کے پیش نظر بھارت کے سیاسی پنڈت بھارتی سیاست میں ان کے مودی کے مدمقابل آنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
اس انتخاب میں مودی سرکار کے مسلم اقلیت ہی نہیں، سکھوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ بھی سوقیانہ سلوک اور ہندوﺅں کی نچلی ذات، دلت کے ساتھ بھی توہین آمیز رویے کے منفی اثرات بہار کے انتخاب میں بی جے پی کے مہابھارت والے توسیع پسندانہ عزائم گنگا میں ڈبونے پر منتج ہوئے ہیں۔ دہلی کی ریاستی اسمبلی میں حکمران بی جے پی کی کجریوال کی عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد مودی سرکار نے ریاستی اسمبلی بہار کے انتخابات کے حوالے سے ہندوازم کے فروغ پر مبنی جارحانہ پالیسی اختیار کی اور اس پالیسی کے تابع ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے بھارتی مسلمانوں کی تضحیک کا سلسلہ شروع کیا اور پاکستان سے آنے والے دانشوروں، کھلاڑیوں، فنکاروں اور دوسرے مکاتب زندگی کے لوگوں کو بھارت سے واپس جانے پر مجبور کرنے کے جارحانہ اقدامات کا بھی آغاز کیا جن کے خلاف مودی سرکار نے کسی قسم کی کارروائی نہ کر کے ان غنڈوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہونے کا عندیہ دیا چنانچہ مودی سرکار کی ان انتہا پسندانہ پالیسیوں کے خلاف بیرونی دنیا میں بھی سخت ردعمل پیدا ہوا اور خود بھارت کے اندر اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی۔ بھارتی دانشوروں اور فنکاروںنے مودی سرکار کی اس پالیسی کو بھارت کے سیکولر چہرے پر بدنما داغ سے تعبیر کیا اور اپنے اعلیٰ سرکاری میڈل واپس کر کے اپنے سخت ردعمل کے اظہار کا سلسلہ شروع کیا۔ معروف بھارتی صحافی اور فلمساز ارون دھتی رائے اور بھارت کے 32 دیگر فلمسازوں نے اس سلسلہ میں بھارتی صدر پرنام مکھر جی کو ایک احتجاجی مراسلہ بھی بھجوایا مگر انتہا پسندبی جے پی کی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور اس نے پاکستان اور مسلم دشمنی پر مبنی اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا جس میں بطور خاص گاﺅ ماتا کی تقدیس کا پراپیگنڈہ کرکے دنیا میں بیف کی سب سے بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود بھارت میں گائے کے گوشت کو نہ صرف شجر ممنوعہ بنا دیاگیا بلکہ یہ گوشت کھانے اور رکھنے کے محض شبہ پر بے گناہ مسلمانوں کو ذبح کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔
بی جے پی کی پاکستان دشمنی تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کیونکہ اس نے گذشتہ سال پاکستان دشمنی پر مبنی منشور اور ایجنڈے کے تحت ہی انتخاب لڑا اور جیتا تھا جبکہ اقتدار میں آنے کے بعد اس انتہا پسند جماعت نے مودی کی سربراہی میں پاکستان دشمنی کے منشور کو عملی جامہ بھی پہنانا شروع کر دیا اور پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی کو انتہا تک پہنچا دیا جس سے پورے خطے میں کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی اور اس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو بھی سنگین خطرہ لاحق نظر آنے لگا۔ چنانچہ بھارت کی ہمنوا عالمی قیادتوں بشمول اوبامہ کو بھی بادل نخواستہ مودی سرکار کی انتہا پسندی کا نوٹس لینا پڑا۔ جبکہ پاکستان کی جانب سے بھارت کی پیدا کردہ سرحدی کشیدگی اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ایک قرارداد بھی داخل کرا دی گئی۔ اسی طرح وزیراعظم نواز شریف کے یو این جنرل اسمبلی سے خطاب اور ان کے گذشتہ ماہ کے دورہ امریکہ کے موقع پر یو این سیکرٹری جنرل بانکی مون اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو ایک ڈوزئیر بھی پیش کیا گیا جس پر پاکستان کے اندر بھارتی مداخلت کے ثبوت ان عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کو فراہم کئے گئے مگر مودی سرکار کی انتہا پسندانہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی عمل میں آئی نہ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں پر تشدد کا سلسلہ ترک کیا گیا۔ اس سے خطہ کا امن و سکون تہ و بالا ہوتا نظر آیا تو بھارتی عوام میں بھی مودی سرکار کی پالیسیوں کی مخالف سوچ کا پروان چڑھنا فطری عمل تھا۔ چنانچہ اپنی انتہا پسندی کا مودی سرکار نہ صرف ریاستی انتخابات میں خمیازہ بھگت رہی ہے بلکہ اس کی قومی سیاست کو بھی سخت دھچکا لگ رہا ہے۔ چنانچہ لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کی اس سیاست کا بولورام ہونے کا قوی امکان ہے۔ اسی تناظر میں بھارتی اپوزیشن لیڈران بھی مودی سرکار کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔ لالو پرشاد کے بقول بہار میں بھائی چارے کی جیت ہوئی اور بہار والوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہندو کو مسلمان سے لڑا کر کوئی نہیں جیت سکتا۔ اسی طرح دہلی، بنگال اور کرناٹک کے وزراءاعلیٰ نے بھی بہار میں بی جے پی کی شکست کو مودی کی تعصب اور عدم برداشت کی سیاست کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اروند کجریوال کے بقول بھارت کے لوگ جنگ نہیں امن چاہتے ہیں اس لئے بہار کے انتخابات میں انہوں نے بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو شکست دی ہے ۔ اور تو اور مسلم دشمنی میں یدِطولیٰ رکھنے والے بھارتی کانگرس کے راہول گاندھی بھی مودی سرکار کی مسلم دشمنی پر اسے بے نقط سنا رہے ہیں جنہوں نے بہار میں بی جے پی کی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ یہ رعونت پر انکسارکی، نفرت پر محبت کی اور بٹوارے پر ایکتا کی جیت ہے۔ اب بہار کے عوام کے مینڈیٹ کے مطابق نتیش کمار ہی وزیر اعلیٰ بنیں گے جو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے دوبار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور اپنے ملک واپس جا کر بھی پاکستان بھارت خیر سگالی کے دوستانہ تعلقات کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ یقیناً اب ان کی یہ سوچ اور سیاست بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست پر حاوی ہو گی چنانچہ بھارت کے ریاستی انتخابات کے نتائج خطے میں پرامن بقائے باہمی کا اصول تسلیم کراتے نظر آ رہے ہیں جس سے اس خطے کے عوام بھارتی پیدا کردہ جنگی جنونیت کے خطرات سے باہر نکلیں گے تو علاقائی تعاون و ترقی کی راہ بھی ہموار ہو گی۔ اگر مودی مسئلہ کشمیر کے حل سے گریزاں ہیں اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کر رہے ہیں تو وہ اپنی انتہا پسندانہ جنونی پالیسیوں کے باعث دنیا میں بے نقاب بھی ہو رہے ہیں۔ اس تناظر میں دنیا میں پاکستان کے تشخص کو اجاگر کرنا اور اس کی نظریاتی اساس میںکسی قسم کی کمزوری کا تاثر پیدا نہ ہونے دینا ہمارے حکمرانوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ وزیراعظم نواز شریف کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ لبرل پاکستان کا شوق اپنے دل میں پالنے سے گریز کریں۔ پاکستان کی نظریاتی اساس دو قومی نظریہ پر استوار ہوئی ہے جسے آج مودی سرکاری کی ہندو جنونیت نے مزید اجاگر کر دیا ہے۔ اگر بھارت میں دوقومی نظریہ دوبارہ زندہ ہو رہا ہو اور اس نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے پاکستان میں دو قومی نظریہ کے باوصف لبرل پاکستان کی سیکولر سوچ حکومتی سطح پر پروان چڑھائی جا رہی ہو تو ملکی مفادات اور قومی امنگوں کے منافی پالیسیوں کا ہمارے حکمرانوں کو بھی ایسا خمیازہ ہی بھگتنا پڑے گا جس کا آج مودی سرکار کو بھارتی عوام کی خواہشات کے برعکس پالیسیوں کے باعث ریاستی انتخابات میں ذلت آمیز شکست کی صورت میں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کوئی معاشرہ اپنی اساس اور بنیاد پر ہی قائم اور برقرار رہ جا سکتا ہے۔ اس لئے عوام ملکی اور قومی تشخص کو بٹہ لگانے والی حکومتی پالیسیوں کو قبول کریں گے نہ اس کی اجازت دیں گے۔