نہری پانی کی چوری کے مقدمے میں ایک نابینا، ایک معذور اور دو مرحومین نامزد۔
یہ ہوتی ہے قانون کی عملداری، کوئی بھی ملزم چاہے زندہ ہو یا مردہ۔ معذور ہو یا اندھا۔ کسی کو کوئی رعایت نہیں مل سکتی ہمارے ملک میں۔ جس ملک میں اندھے اور چلنے پھرنے سے معذور لوگ اور ان سے بھی بڑھ کر مرے ہوئے لوگ بھی نہری پانی چوری کرنے سے باز نہ آتے ہوں، وہاں ایسے ہی اندھے قانون کو حرکت میں لانا پڑتا ہے، جس کے سامنے سب برابر ہوں اور قانون کے محافظ اپنی غلطیوں پر شرمندہ بھی نہ ہوتے ہوں۔
اب یہ معلوم کرنا عدالت کا کام ہے کہ وہ پتہ چلائے کہ آخر کس ٹیکنالوجی کی مدد سے مردوں نے دوبارہ زندہ ہو کر اندھے نے دیکھ کر اور معذور نے چل کر نہری پانی کی چوری کا یہ اہم کارنامہ انجام دیا۔ باقی رہی ہماری پولیس تو اس میں اتنا دم خم موجود ہے کہ وہ سب کچھ ان نیم زندہ اور مکمل مردہ ملزمان سے خود ہی اگلوا بھی دے گی۔ جس معاشرے میں جرائم کا گراف روز افزوں ترقی پر ہوگا۔ قانون نافذ کرنے والوں کا تنزلی کی طرف ہوگا، وہاں ایسے انہونے مقدمات درج ہوتے رہیں گے اور لوگ ہنستے رہیں گے، اس حالت میں تو ہم خادم اعلیٰ سے یہی کہہ سکتے ہیں۔
”اٹھ درد منداں دیا دردیا تے تکّ اپنا پنجاب“
....٭....٭....٭....٭....٭....
وزیراعظم نے آج تک ہمیں ایک دھیلا نہیں دیا، قائم علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ لگتا ہے تازہ تازہ نیند سے چونکے ہیں اور انہیں یاد آیا کہ وزیراعظم نے ان کے صوبے کے لئے 12ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا مگر افسوس صد افسوس ان کی لمبی تان کر سونے کی عادت کی وجہ سے ابھی تک انہیں یہ رقم نہیں دی گئی، اب اگر قائد پی پی پی آصف زرداری پاکستان میں ہوتے تو کیا وہ وزیراعلیٰ سندھ کی یہ نااہلی برداشت کرپاتے۔ شاہ جی کو لکھ لکھ وار شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ سندھ میں نہیں اگر ہوتے اور یہ 12ارب مل جاتے تو آج شاہ جی کسی کے سامنے یہ شکوہ بھی نہ کر پاتے کہ ملنے والے 12 ارب روپے تو چیئرمین صاحب دوبئی ساتھ لے گئے ہیں، انہیں تو شکر کرنا چاہیے کہ یہ رقم ابھی تک نہیں ملی، رہی بات پولیس والوں کی قربانیوں کی اور ان کے پاس بلٹ پروف جیکٹس اور گاڑیاں نہ ہونے کی تو عالی جاہ گزشتہ دس برسوں سے آپ سندھ کے مختار کل بنے بیٹھے ہیں۔ آج تک آپ نے اس سونے کی چڑیا یا سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کی حفاظت کیلئے اپنے خزانے سے یہ سب کچھ کیوں نہیں لیا اور 3سال قبل تو آپ ہی کے وڈےّ سائیں زرداری صاحب کی ہی حکومت تھی انہوں نے 5برسوں میں اپنے گھر کی خبر کیوں نہ لی اور اس عرصہ میں آپ کیوں منہ اور آنکھیں بند کر کے سوتے رہے کہ اب جاگ اٹھے ہیں اور آپ کو 12ارب کی جھنکار سنائی دے رہی ہے۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
ڈی سی او میانوالی اور ڈی پی او جھنگ نے ہرن اور تیتروں کا شکار کھیلا۔
اب کیا کہتے ہیں تحفظ محکمہ جنگلی حیات والے، ان اعلیٰ افسران کی اس حرکتِ شکار پر۔ حکومتی احکامات کے مطابق تو اس وقت جنگلی حیات کے شکار پر پابندی ہے، اگر کوئی بدقسمت غریب شکاری پکڑا جائے تو فوراً اس کی تصویر اور خبر جاری کر کے محکمہ انسداد شکار والے نمبر ٹانگنے لگ جاتے۔
مگریہاں میڈیا پر خبر چلنے،تصاویر کی اشاعت کے باوجود سب کی زبانوں پر تالے لگے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے ان شکاریوں کی پہنچ بہت دور تک ہے اگر ان کے خلاف کچھ بولا تو پھر ان بولنے والوں کے پاس بولنے کے لئے باقی کچھ نہیں بچے گا۔ کہتے ہیں ناں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے تو یہ بڑے افسران بھی شکار کی عادت سے مجبور ہو کر کالاباغ چلے آئے بے زباں جانوروں کا شکار کھیلنے، مگر یہ بھول گئے تھے کہ ہمارے حکمرانوں نے اگر سادہ لوح عوام کو خوش کرنے کے لئے جنگلی جانوروں اور مہذب انسانوں کے شکار پر پابندی لگا رکھی ہے تو اس پر عمل کرنے کی کسی میں مجال ہی نہیں ہے۔۔ یہاں تو ہر صاحب اختیار شکاری اور بے اختیار شکار بنے ہوئے ہیں۔ اور
شکاری میرے نین تو میرا نشانہ
جو مرضی اے کر لے کسِے نئیں بچانا
کی صورتحال سامنے رہتی ہے اور یہ بے چارے بے زبان ہرن اور تیتر ان بے رحم شکاریوں کے پیٹ میں پہنچ جاتے ہیںاور یہ ہنستے مسکراتے تصویریں بناتے ہیں۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
کراچی: بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گئی
پنجاب میں علیحدہ علیحدہ لڑ کر انہوں نے کونسا تیر مار لیا جو اب کراچی میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے یہ کوئی نیا چن چڑھا لیں گے۔ کراچی میں ابھی ایم کیو ایم موجود ہے۔ اس میں شامل جرائم پیشہ عناصر کیخلاف آپریشن کا مطلب یہ نہیں اردو بولنے والوں نے اس کی حمایت یا سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ بلدیاتی سطح پر ابھی تک ان کا زور قائم ہے اور یہ اسی گرفت کا کمال ہے کہ ایم کیو ایم ابھی تک خود کو اردو بولنے والوں کی جماعت قرار دیتی ہے اور وہ اس اتحاد پر برجستہ
بھان متی نے کنبہ جوڑا
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
کی پھبتی کس سکتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کا یہ اتحاد کراچی میں موجود پٹھان برادری کے ووٹ حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وہاں اے این پی بھی موجود ہے جو خود کو پٹھانوں کی سب سے بڑی ہمدرد خیال کرتی ہے اور ان کے ووٹوں کی طالب ہے۔ کیا وہ خیبر پی کے کے بعد کراچی میں بھی انہیں اپنا دسترخوان لوٹنے کی اجازت دے گی۔ اب دیکھنا ہے بلدیاتی الیکشن میں دو جماعتی اتحاد کیا رنگ لاتا ہے یا ایم کیو ایم ایک بار پھر کراچی کو اپنا مرکز ثابت کرتی ہے۔ رہی اے این پی تو فی الحال وہ بیگم نسیم ولی اور اسفندیار ولی کے گھریلو تنازعہ میں گھری ہوئی ہے، شاہی سید تنہا کیا بھاڑ پھونکیں گے!
....٭....٭....٭....٭....٭....
منگل‘ 27 محرم الحرام 1437ھ ‘ 10 نومبر 2015ئ
Nov 10, 2015