پانی کو ترستا کراچی۔۔۔مثل کربلا کس نے بنایا؟

گزشتہ روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے واٹر ٹینکر مافیا سے متعلق کیس میں سخت ریمارکس دیئے اور اس معاملے میں سندھ حکومت اور واٹربورڈ انتظامیہ کی سرزنش کرکے 15دن میں رپورٹ طلب کرلی۔ کراچی میں عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور کراچی کو کربلا بنانے والے تمام اسٹیک ہولڈرز خود کو پارسا ثابت کرتے ہیںاور عوام کو اس مسئلے کے حل کی اب دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آرہی۔
دراصل پانی کی کوئی قلت نہیں ہے کیونکہ کراچی کے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پانی روزانہ آتا ہے اور لوگ پانی بھرنے کے بعد گلیاں بھی دھوتے ہیں اور کچھ علاقوں میں پانی پینے کے لئے بھی نہیں دیا جاتا۔ کراچی میں والو آپریشن غیر منصفانہ طریقے سے چلایا جاتا ہے اور واٹر بورڈ حکام اور اہل اقتدار کی ملی بھگت سے کراچی کے کچھ علاقوں کو پانی کے لئے ترسایا جارہا ہے۔ اس سنگین صورتحال کی تمام ذمہ داری وفاقی و صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔
کراچی میں زیر زمین میٹھا پانی نہیں ہے اور لوگ مجبوراً ٹینکر مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔جن علاقوں میں پانی کی لائنوں میں گٹر کے پانی کا رساﺅ ہے اس کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اس وجہ سے مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔چند سال پہلے تک پینے کے پانی کی فراہمی درست طریقے سے چل رہی تھی اور لوگوں کو سیوریج ملے پانی کی بھی شکایات نہیں تھیں ۔ میرے خیال میں اب حکومت‘ بیورو کریسی اور انتظامیہ نے ملی بھگت سے یہ سب کچھ کیا ہے اور شاید جان بوجھ کر پینے کے پانی میں سیوریج کا پانی شامل کیا جارہا ہے تاکہ نام نہاد ”منرل واٹر“ کمپنیاں چلائی جاسکیں۔ کراچی میں جس کاروبار کو سب سے زیادہ فروغ حاصل ہوا ہے وہ منرل واٹر کا ہی ہے۔ اس وقت کراچی میں مختلف ناموں سے ہزاروں منرل واٹر کمپنیاں کام کر رہی ہیں جو اس وقت ایک مافیا کی صورت اختیار کرگئی ہیں۔ اگر حکومت درست طریقے سے منرل واٹر کمپنیوں کی جانچ پڑتال کرے تو شاید چند ایک ہی سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہوں گی اور ان میں سے بھی کئی کمپنیوں کے پانی کا معیاری لیبارٹری سے ٹیسٹ کرایا جائے تو شاید یہ پانی بھی عالمی معیار کے مطابق نہیں ہوگا۔ منرل واٹر کے نام پر لوگوں کو عام لائنوں کا پانی ہی بھاری قیمتوں پر فروخت کیا جارہا ہے لیکن پانی میں سیوریج کے پانی کی ملاوٹ کے باعث لوگ نفسیاتی طور پر اب منرل واٹر کی بوتلیں خریدنے پر مجبور ہیں کیونکہ عام لائنوں میں آنیوالے پانی سے ان کا بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ حکومت سندھ ‘ پنجاب اورکراچی و لاہور کی سٹی گورنمنٹ کو چاہئے کہ شہر میں قائم منرل واٹر کمپنیوں کے خلاف زبردست کریک ڈاﺅن کرکے پہلے ان کی سرکاری طور پر رجسٹریشن کی تصدیق کریں اور اس کے بعد ان کمپنیوں کے پانی کو معیاری لیبارٹری سے ٹیسٹ کرانے کے بعد غیر قانونی و غیر معیاری منرل واٹر کمپنیوں کے خلاف سخت ترین کارروائی بہت ضروری ہے اور یہ اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب حکومت ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت پہلے ایک ہنگامی پلان تشکیل دیکر پانی کی لائنوں میں سیوریج کے پانی کی مکسنگ کو ہر صورت ختم کرے اور دوسرے مرحلے میں نام نہاد منرل واٹر اور ٹینکرمافیا کے خلاف آپریشن کا آغاز کرے۔ جمہوریت کے نام پر اقتدار حاصل کرنیوالے اگر عوام کو صرف پینے کاوافر صاف پانی ہی فراہم نہ کرسکیں تو انہوں نے اور کیا کرنا ہے؟ میرے خیال میں اقتدار پر قابض مافیا کی ترجیحات میں عوامی مسائل حل کرنا نہیں بلکہ مخصوص منصوبہ بندی کے تحت عوام سے پیسے بٹورنا ہی ہے۔ اگر اس معاملے کی تحقیقات ملکی سلامتی کے ادارے کریں تو پوراٹینکر اور منرل واٹر مافیا بے نقاب ہوجائیگا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...