اس تمنا میں ہو گئے رسوا

لڑکپن میں ایک لطیفہ سنا تھا شومئی قسمت سے ایک مراثی کا بیٹا اوورسیئر ہو گیا جب اس نے باپ کو ریڈیو گرام اور دھوپ سے بچنے والی عینک بھیجی تو والد صاحب کی گدرائی ہوئی مونچھیں کھڑی ہو گئیں اور سنولائی ہوئی رنگت میں ایک چمک سی آگئی۔ اسی زعم میں وہ گا¶ں کے چودھری کے پاس چلا گیا اور اپنے بیٹے کےلئے اس کی لڑکی کا رشتہ مانگا، یہ سنتے ہی چودھری گرما کے مثل صاعقہ طور ہو گیا۔ اس نے مراثی کو زمین پر بٹھا کر لاتوں، جوتوں اور گھونسوں سے مرمت کی۔ اس ”کار خیر“ میں اس کے نوکروں اور دیگران نے بھی حسب استطاعت حصہ ڈالا جب وہ تھک کر بیٹھ گئے تو مراثی کپڑوں سے گرد جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ چودھری کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ”فیر میں انکارہی سمجھاں!“ 

یہ بھولا بسرا لطیفہ ہمیں کرکٹ کے مدارالمہام شہر یار خان صاحب کا بیان پڑھ کر یاد آیا۔ محترم حال ہی میں ہندیاترا کر کے آئے ہیں۔ وہاں کے کرکٹ بورڈ نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ شیوسینا کے غنڈوں نے گالیوں اور نعروں سے ان کی تواضع کی۔ ان کی نقل و حرکت ہوٹل کے کمرے تک محدود ہو گئی۔ باایں ہمہ میرامن کے اس پانچویں درویش نے ہمت نہ ہاری، ہندو¶ں کے ترلے منت کرتے رہے کہ ممبئی نہیں تو واہگہ بارڈر پر ہی ملاقات ہو جائے۔ ٹکہ سا جواب ملنے پر واپس آئے اور ایک پریس کانفرنس میں فیصلہ کن لہجے میں فرمایا۔ اگر ہندوستان نے کرکٹ کھیلنے کے سلسلے میں چند روز میں جواب نہ دیا تو ”تو فیر میں انکار ہی سمجھاں گا“ اس قدر ہمت اور حوصلہ صرف اس شخص کا ہی ہو سکتا ہے، لگتا ہے کہ قومی غیرت، حمیت، وقار کے ”بے معنی“ الفاظ ان کی ڈکشنری میں نہیں ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ بے نیل مرام واپس آتے ہی قوم سے معافی مانگتے اور استعفیٰ دے کر کنج تنہائی میں چلے جاتے لیکن جس مٹی سے کرکٹ کے چیئرمین بنتے ہیں وہاں ان الفاظ کے معانی اور مفاہیم بدل جاتے ہیں۔
پتہ نہیں یہ مرحلہ عمر ہے یا ہوس زر کہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ تضحیک کی مکھی نگل گئے ہیں۔ ابھی کل ہی کو تو بات ہے قصوری صاحب کلکرنی کا منہ کالا کرا کے لوٹے ہیں۔ غلام علی گویے کو شیوسینا کے غنڈوں نے فنکشن نہیں کرنے دیا۔ راحت فتح علی خان کی ساری پونجی کسٹم والوں نے ضبط کر لی اور انہیں حراست میں لے لیا۔ ان حالات میں ان کا اور نجم سیٹھی کا ہندوستان جانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیٹھی ہوشیار شخص ہے ہو سکتا ہے اس نے انہیں شہ دی ہو، یہی وجہ ہے کہ وہ ممبئی سے دبئی کوچ کر گئے اور انہیں بے یار و مددگار چھوڑدیا۔ شہریار کو غچہ دینے کے باوصف سیٹھی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے۔ وہ بھی اتنے ہی مورد الزام ہیں جتنے بابا جی ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت کرکٹ میں جو (DUALISM) ہے سیٹھی اس سے خوش نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی راہ میں آئے ہوئے اس کانٹے کو نکالنے کا یہ نادر موقع تھا۔ عمران خان ایک عرصہ تک قوم کو یہ باور کراتے رہے کہ سیٹھی کو یہ انعام پینتیس پنکچروں کی وجہ سے ملا ہے۔ سادہ لوح خان یہ نہ سمجھ سکے کہ کرکٹ کی یہ (COVETED POST) پنکچر لگانے سے نہیں بلکہ اس کے الزام لگانے کی وجہ سے ملی ہے۔ اس تمام عرصے میں نجم سیٹھی میاں نواز شریف کو بتاتے رہے کہ اس کی رسوائی میاں صاحب کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ انہیںیہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ ان ناکردہ گناہوں کی وجہ سے وہ انعام کا مستحق ہے۔ اسے انعام سے تو نوازا گیا لیکن پالا ایسے شخص سے پڑ گیا جو اس سے بھی بڑا کائیاں تھا۔ دونوں کے درمیان ایک طویل عرصہ تک میوزیکل چیئرز کی گیم ہوتی رہی۔ ان کے محسن و مربی شاہان اس دنگل سے محظوظ ہوتے رہے اور کسی قسم کی مداخلت مناسب نہ سمجھی، کون کہتا ہے کہ روم کے اکھاڑے اب ختم ہو گئے ہیں۔ جو مرتبہ سیٹھی صاحب نے سردار صاحب والا دھکا لگنے سے حاصل کیا تھا اس کےلئے ذکاءاشرف کو بڑی جدوجہد کرنا پڑی! بعض لوگوں کا اشکوں کے ہار سے ہی دل پسیج جاتا ہے اگر شاہ حریص ہو تو پھر ہیروں کا ہار پیش کرنا پڑتا ہے۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
شہر یار خان بنیادی طور پر ایک شریف انسان ہیں۔ فارن سروس میں ایک اہم عہدہ پر متمکن رہے ہیں۔ خاندانی پس منظر بھی اچھا ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ نہیں ہو کیا گیا ہے؟ دل کیوں بار بار طواف کوئے ملامت کےلئے ہمکتا ہے۔ کیا یہ ناسٹلجیا ہے؟ ہندوستان جانے کی شدید خواہش! ممبئی کا گلیمر ہے جو آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے، ہوس زر ہے؟ بقول سیٹھی میچ کھیلنے سے اربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ اربوں روپے کس قیمت پر؟ قومی عزت و وقار کا سودا کر کے! پاکستان کو دنیائے کرکٹ میں رسوا کر کے؟ ہندو بنیے کے آگے گڑگڑا کر اور ہاتھ جوڑ کر! نہایت افسوس اور بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ڈھلتی ہوئی عمر کے سائے خان صاحب کی شخصیت پر پڑنا شروع ہو گئے ہیں ۔ جبھی تو بقول ہمارے دوست ملک صاحب (He IS BLOWING HOT AND COLD IN THE SAME BREATH)کبھی کہتے ہیں ہندوستان کے بغیر ہماری کرکٹ ادھوری ہے۔ پھر فوراً ہی فرماتے ہیں اگر ہندوستان نہ کھیلا تو ہم مر نہیں جائیں گے۔ خان صاحب! قومیں کرکٹ نہ کھیلنے سے نہیں مرتیں، غیرت سے مر جاتی ہیں۔
وزیر اعظم صاحب کو سوچنا چاہئے کہ اب اتہام کی انگلیاں ان کی طرف بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کیونکہ قوم کو یہ تحفے انہوں نے ہی دیئے ہیں گو انہوں نے اپنے اردگرد مشیروں کا حصار کھڑا کر رکھا ہے لیکن تاریخ کے جھرکووں میں جھانکنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو ایک بیدار مغز حکمران تھے۔ بالفرض کہیں غلطی ہو بھی جاتی تو انہیں بھنور سے باہر نکلنے کا طریقہ آتا تھا۔ کاردار کو کھلاڑیوں سے سینگ اڑانے کا مشورہ بھٹو نے دیا تھا۔ جب دیکھا کہ کیری پیکر سرکس کی وجہ سے رائے عامہ خلاف ہو رہی ہے تو کاردار کو یک بینی و دوگوش نکال باہر کیا۔ ہر طرف واہ، واہ ہو گئی۔ ٹرانسپورٹ کو قومیانے کا آئیڈیا بھی ان کا تھا۔ نوٹیفیکیشن کے بعد جب ہر طرف سے لعن طعن شروع ہوئی اور شور شرابا مچ گیا تو زیرک مولانا کوثر نیازی نے انہیں وہ مشورہ دیا جو فلورنس کے پرنس کو اس کے مشیر نے دیا تھا۔ ٹرانسپورٹ منسٹر افضل وٹو کو فارغ کر دیا جائے۔ وٹو نے فارغ تو ہونا ہی تھا، مولانا صاحب نے بطور حفظ ماتقدم چند فوجداری مقدمات بھی زاد راہ کے طور پر انہیں مرحمت فرمائے! معروضی حالات میں میاں نواز شریف نے کیا کرنا ہے اسے جاننے کےلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...