افواجِ پاکستان ہماری قومی سلامتی کی علامت ہے۔ ہمارے دشمنوں کے دلوں پہ اُس کی دھاک بیٹھ چکی ہے۔ ہماے سر بکف مجاہدوں کے قدموں کی دھمک جب زمین سے اُٹھتی ہے تو فضاﺅں میں عوام کا نعرہِ تکبیر گونجنے لگتا ہے۔ ہمارے وطن کے لیے خاکی وردی کی شان اور آن جان ومال سے بڑھ کر ہے۔ وطن کا پرچم دنیا بھر کے پرچموں میں اپنی ایک حیثیت،عظمت اور پہچان رکھتا ہے۔ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت پہ مامور ہمارے جوان یوں سینہ بجا کر دشمن کا سامنا کرتے ہیں کہ اُن کے نعرہ تکبیر سے دشمن دہل جاتا ہے۔ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر وردی، وطن، اللہ اور اپنی ماں سے کیا گیا وعدہ نبھانے کے لیے ہماری سپاہ تمام عسکری قیادتوں کے ساتھ جنگلوں، بیابانوں، پہاڑوں، وادیوں،گلیشئرز،سمندروں اورفضاﺅں میں اپنی خدمات جس طرح انجام دیتی ہیں وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہیں بلکہ بے مثل بھی ہیں۔قوموں کی زندگی میں اہم فیصلوں کے بہت سے مواقع آتے ہیں۔ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ اور اُس پر عملدرآمد ہی قوموں اور وطن کی سربلندی کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔ اسی طرح بہترین عسکری قیادت جو کہ نہ صرف وقت کی ضرورت کےلئے فہم و فراست سے بھرپور ایک فیصلہ کیاگیا۔ اس فیصلے میں ملک و قوم کی جغرافیائی حدود کی حفاظت اور شاطر و عیار دشمنوں سے ملک کی عظمت ،قوم کی جان و مال و عزت کا ذمہ نہ صرف اپنے سر لیا بلکہ اپنی فقیہہ الذہنی،جفا کشی،جوانمردی اور قائدانہ صلاحیتوں سے اُس پہ پیروکار کے لیے فوری حکمتِ عملی تیار کی اور اُس پر عملدرآمد کرنے اور کرانے میں لمحہ بھر ضائع نہ کیا۔
وردی میں ملبوس بیٹا جب ماں کے ہاتھ چومتاہے تو ماں کی آنکھوں میں فخر اور تشکر کے آنسو بھر آتے ہیں۔زندگی کے سفر میں کامیابی سے بڑھتے ہوئے اس فوجی افسر کے خیالات و جذبات اور فہم و فراست کی بہت شاندار مثالیںسامنے آتی ہیں جن سے اُن کے وقار میں اضافہ ہوتا اور اعلیٰ افسروں کی نگاہیں اُن کی صلاحیتوں کو اور بھی پرکھنے اور جانچنے کے لیے حکمتِ عملی بنانے لگتی ہیں۔ ایک کامیاب انسان کے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ہو گا کہ وطن کی حفاظت کی باگ دوڑ جلیل القدر قادرِ مطلق نے اُس کے وقت فوج کے سپُرد کی جب وہ لمحہ وہ وقت انتہائی مشکل حالات کی لپیٹ میں تھا۔ نہ صرف پاکستان کے اندر نظریاتی حدود پر بھی دشمن قدغن لگانے کو بھیڑیے کی طرح سے موقع کی تاک میں بیٹھا تھا۔افواج پاکستان اور اس کی قیادت بخوبی واقف تھی کہ اُنکے گرد آگ کا الاﺅ ہے اور اُسے بُجھانے کے لیے اُنہیں پانی نہیں بلکہ اپنے خون کا چھڑکاﺅ کرنا ہو گا لیکن جس کی رگوں میں شہیدوں اور غازیوں کا لہو دوڑتا ہو جس کے سر پہ اُن بہنوں کا آنچل ہو جو ہر پل دُعاﺅں کی مشعلیں جلانے کے لیے باوضو رہتی ہوں اُس ماں کی محبت اُس کا آسرا ہو وطنِ عظیم کی سربلندی کا باعث بنا ہو تو پھر وہ اقبال کا شاھین، اللہ کے نبی کا سپاہی،رحمن و رحیم کا داعی بن جاتاہے۔ دہشت گردی کی ایک عشرے سے لڑی جانے والی جنگ میں کتنے ہزارہا شہادتوں کی تاریخ رقم ہوئی اُس سے قوم کا ہر فرد واقف ہے۔ یہ جنگ ہماری جنگ بھی نہیں یہ تو ہم دشمن کی شاطرانہ شطرنج کی بچھائی ہوئی بساط کھیل رہے ہیں پھر افواج اورقوم نے ایک عزمِ آہن لے کر ارادہ کیا کہ وہ معصوم بے گناہ قوم کو دہشت گردوں کی بربریت اور ستم ظریفی کا نشانہ نہیں بننے دیں گے۔ بے یقینی کی اس کیفیت سے قوم کو اُس وقت نکالنا ناممکن سا نظر آتا تھا باوجود اس کے کہ وردی کی عظمت کا مینار بلند تھا مگر قوم ڈری اور سہمی ہوئی زندگی کی نگاہیں کسی پر بھی مرکوز نہ کرسکتی تھیں وہ رات کو یہ سوچ کر سوتے تھے کہ نجانے صُبح اُن کی زندگی ہو گی یا نہیں اوریہ اندیشہ اُن کے دلوں میں پلتا تھا کہ ٹی وی آن کرتے ہی کوئی نہ کوئی دل دہلا دینے والی خبر سے آگاہ ہونا پڑے گا۔ایسے مرحلے میں عسکری قیادت کےلئے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا مگر اُنہوں نے کیا اور (ضرب عضب) جیسی بہترین جنگ کا آغاز کیا وہ جنگی قیادت سے لے کر ملک دشمن عناصر کا ملک کے اندر انتشار پھیلانے کے معاملے تک اُنہوں نے ایسی حکمتِ عملی بنائی کہ زلزلے،سیلاب،طوفان اور دیگر آفات میں بھی وطن اور معصوم قوم کو تنہا نہ چھوڑا۔ سانحہ پشاور کے بعد جس طرح افواج پاکستان نے جس طرح سے متاثرہ خاندان کو اُن کے بچوں کے ساتھ بہیمانہ اور سفاکانہ سلوک روا رکھنے پر اُن کو اپنے سینے سے لگایا اور اُن کے بچوں کی عظیم شہادت پر جس طرح وہ پوری قوم کے ساتھ عزمِ آہن کا پیغام لے کر آگے بڑھی اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ وہی عزم تھا جو کہ محترمہ کی آنکھوں میں عیاں تھا اُ کے لہجے ماﺅںکے بہادر ماں کی آرزوئے شہادت کی دُعائیں مہک رہی تھیں۔ وزیرستان کی تاریک مشکل ترین گھاٹیاںتھیں یا بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں پہ خیمہ زن دشمن کے مورچے ملک کے شمالاً جنوباً یا شرفً غربً جو بھی سازش اور سازشی کردار تھے۔ فاٹا سوات دیر اور میران شاہ جیسے سخت ترین علاقوں سے دہشت گرد جو کہ قول و کردار کا کُھلا تضاد رکھتا تھا جس کی زبان پر اللہ اکبر اور دل میں کینہ بُغض نفرت اور وحشت کے پھیلانے کے ناپاک عزائم تھے کو ایک ایک افواج پاکستان نیزے کی نوک پہ لے آئی اور آج چہ جائیکہ کہ دہشت گردی مکمل ختم نہیں ہوئی اور اندرونی دشمن بیرونی دشمنوں سے مختلف تنظیموں اور تحریکوں سے سازباز کر کے بزدلانہ حملوں سے ہمیں ڈرانے یا قوم کو پھر سے بے یقینی کی کیفیت میں لاکھڑا کرنے کے درپے ہے لیکن افواج پاکستان نے اُن کے ناپاک عزائم کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ دیا ہے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ملک کی دو قیادتیں ہوا کرتی ہیں ایک عسکری اور دوسری سیاسی ان قیادتوں کے باہمی گٹھ جوڑ صلح و مشورے ذہنی ہم آہنگی فہم و فراست اور اتحاد کے ساتھ چلنے میں کسی بھی ملک کی ترقی و سربلندی کا سہرا ہوتا ہے اور عوام کا ان دونوں قیادتوں پر یقین اور ان قیادتوں کا احترام مشکل ترین حالات میں بھی حوصلہ مندی اور عزم و ہمت کو ڈگمگانے نہیں دیتا۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی