سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے حق میں فیصلہ دیدیا اور این اے 110 میں ان کی انتخابی کامیابی کے خلاف دائر انتخابی عذرداریاں خارج کر دی ہیں۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں قرار دیا ہے کہ فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ عدالت نے وزیر دفاع پر عائد دھاندلی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ انتخابات کے حوالے سے موجودہ قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور انتخابی عمل میں بڑے پیمانے پر خامیاں ہیں، اگر عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 44 کو مدنظر رکھیں تو پورا الیکشن کالعدم ہو جائے، نظام میں بہتری لانے کے لئے سٹیٹس کو کو توڑنا ہو گا جس کی وجہ سے طاقتور لوگ گذشتہ کئی دہائیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ 18 برس بعد بھی مردم شماری نہیں ہو سکی۔ خواجہ آصف کے وکیل نے کہا کہ سٹیٹس کو ٹوٹنا چاہئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میری زندگی میں تو یہ سٹیٹس کو ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ اگر ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہیں تو اس کا ذمہ دار انتخابات میں کامیاب امیدوار کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی میں بھی صرف بحث و مباحثے جاری ہیں۔ ان سے نظام میں بہتری کے حوالے سے کوئی چیز دریافت نہیں ہو سکی۔ تین رکنی بینچ نے تحریک انصاف کے امیدوار عثمان ڈار اور ارشد محمود بگو کی 2 اپیلوں کی سماعت مکمل کرنے کے بعد مختصر فیصلہ سنایا۔ خواجہ آصف کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے موقف اختیار کیا کہ این اے 110 میں عام انتخابات کا الیکشن شفاف انداز میں ہوا اس کا کوئی ریکارڈ متاثر نہیں ہوا تھا اور پریذائیڈنگ افسران کی جانب سے بھیجے گئے تمام بیگز سمیت دیگر ریکارڈ ریٹرننگ افسروں نے وصول کیا جس کی تصدیق وصولی کی رسیدوں سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی مواد غائب ہوتا ہے یا متاثر ہوتا ہے تو اس عمل کو الیکشن عمل کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ انہوں نے عدالت کو دستاویزات دکھاتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ افسر اور اکاؤنٹس افسر کے دستخطوں کے ساتھ دستاویزات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ حلقے کے 227 تھیلے وصول کر کے جمع کئے گئے اور بقایا بیلٹ پیپرز سمیت دیگر سامان بھی موصول ہوا اس لئے ریٹرننگ افسروں پر الزام لگانا کہ وہ امیدوار خواجہ آصف کے ساتھ ملے ہوئے تھے، درست نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کا سیکشن 44 کہتا ہے کہ انتخابات کا تمام ریکارڈ الیکشن کمشن کی تحویل میں رہے گا لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کمشن کے پاس ریکارڈ رکھنے کے لئے جگہ ہی دستیاب نہیں ہے اور سارا سامان مال خانے بھجوایا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے انتخابی عمل میں بڑی خامیاں موجود ہیں اور ایک ریٹرننگ افسر کا کہنا تھا کہ الیکشن کا دن ان کے لئے روز محشر ہوتا ہے۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر مال خانے میں رکھے گئے سامان میں خرابی آتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا اور اگر سامان غائب ہو جائے تو کیا اس کا ذمہ دار امیدوار ہو سکتا ہے تو فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ سامان غائب ہونے کا ذمہ دار امیدوار کسی صورت نہیں ہو سکتا۔ نادرا اور الیکشن کمشن کی رپورٹس کے مطابق کل 4293 ووٹ متنازعہ ہیں۔ اگر یہ تمام ووٹ بھی عثمان ڈار کو دے دیئے جائیں تو بھی خواجہ آصف 16000 ووٹوں سے جیت جاتے ہیں۔ فاروق نائیک نے چار عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔ تحریک انصاف کے امیدوار عثمان ڈار کے وکیل بابر اعوان نے جواب الجواب میں کہا کہ عدالت کے سامنے درست حقائق پیش نہیں کئے گئے اور اس کیس میں ٹربےونل کے جج نے بھی درست انداز میں سماعت نہیں کی۔ عدلیہ کی آزادی کے لئے ایک راستہ چنا گیا تھا کہ انتظامیہ کا عدلیہ پر اثر و رسوخ ختم کیا جانا چاہئے۔ اگر عدلیہ پر انتظامیہ کا دباؤ جاری رہا تو پھر مظاہرے جاری رہیں گے اور ماضی کے مظاہروں سے بڑے مظاہرے ہونگے۔ بابر اعوان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں بے ضابطگیوں پر ریٹرننگ افسر اور مال خانے کے سربراہ کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ انہوں نے استدعا کی کہ عثمان ڈار کی درخواست منظور کرتے ہوئے حلقے کے انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی ریکارڈ محفوظ بنانا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے۔ ریکارڈ خراب یا ضائع ہو جائے تو جیتا ہوا امیدوار ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ فاروق ایچ نائیک نے فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا میں کہا کہ الیکشن کمشن اور نادرا کی رپورٹ میں کوئی الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ الیکشن قوانین میں اصلاحات کی کمیٹی کام کر رہی ہے اور امید ہے کہ وہ جلد ہی اپنا کام مکمل کر لے گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عدلیہ نے بھی سیالکوٹ کے عوام کے فیصلے کی تائید کر دی ہے۔ میرے پاس اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کیلئے الفاظ نہیں۔ ”ٹوئٹر“ پر جاری پیغام میں خواجہ آصف نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ اور عدلیہ کا شکر گزار ہوں۔ سیالکوٹ کے لوگوں کی دعائیں میرے ساتھ تھیں۔ خواجہ آصف نے کہا مخالفین الیکشن کمشن میں بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشن نے بھی میرے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ مخالفین الیکشن کمشن میں بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکے تھے۔ نواز شریف کا کارکن ہوں اور ان کی قیادت میں بیٹنگ کرتے رہیں گے۔ ہماری وکٹیں اُڑانے والوں کی باتیں خواب و خیال ہی رہیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چودھری نے کہا ہے کہ خواجہ آصف کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد 2013ءکے شفاف الیکشن کی تصدیق ہو گئی۔ 2013ءکے الیکشن پاکستان کی تاریخ کے بہترین الیکشن تھے۔ جھوٹ کی بنیاد پر بنایا گیا کیس ختم ہو گیا ہے اور الزام لگانے والوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے سیالکوٹ کے عوام کی فتح ہوئی ہے جس پر میں وزیر دفاع خواجہ آصف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ عمران خان کا چار حلقوں کا جھوٹا الزام دم توڑ گیا ہے جبکہ 35 پنکچر کے نعرے سے بھی ہوا نکل گئی ہے۔ ترجمان تحریک انصاف نعیم الحق نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ این اے 110 کیس سے نظام کی کمزوریوں کے کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔ خواجہ آصف نے انتظامی افسروں کی مدد سے سپریم کورٹ سے شواہد چھپائے۔ خواجہ آصف انتظامی افسروں کی مدد سے شواہں تلف کرنے میں کامیاب رہے۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے کہا سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کا موقف کو تسلیم کر لیا، عدالت نے بے ضابطگیوں کے اعتراف کے ساتھ انکوائری کمشن کی جانب سے سامنے لائی گئی خامیوں کی بھی تصدیق کی ہے۔ تحریک انصاف ہمیشہ کہتی رہی ہے کہ ادارے اپنا کام درست نہیں کر رہے ادارے درست کام کریں تو عدالتوں میں بھی انصاف ملے گا۔ خواجہ آصف کے حق میں فیصلہ آنے پر مسلم لیگ (ن) دفتر پیرس روڈ میں مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں اور کارکنوں نے مٹھائیاں تقسیم کی اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا۔ کارکنوں نے خواجہ آصف زندہ باد اور مسلم لیگی قیادت کے حق میں نعرہ بازی کی۔
این اے 110 ، دھاندلی کے الزامات مسترد، سپریم کورٹ کا خواجہ آصف کے حق میں فیصلہ، حامیوں کا جشن، بھنگڑے؛ عدالتی حکم تسلیم، وفاقی وزیر نے انتظامی افسروں کی مدد سے شواہد تلف، ترجمان پی ٹی آئی
Nov 10, 2016 | 21:31