کراچی کی بدلتی سیاست ملکی سطح پر تبدیلی کا پیش خیمہ؟

سچ پوچھیں تو میں آج کا کالم آرمی چیف کے حالیہ دورہ ایران کے بارے میں لکھنے کا ارادہ رکھتا تھا کیونکہ ایران پاکستان کا ایک نہایت اہم ہمسایہ برادر مسلم ملک ہے اور موجودہ عالمی ماحول میں حالیہ حالات میں ہم ایک مشکل دورانیہ سے گزر رہے ہیں۔ چنانچہ اپنی سوچ کی رہنمائی کیلئے میں نے بدھ وار 8 نومبر کے ’’نوائے وقت‘‘ میں تحریر شدہ اداریہ سے رہنمائی حاصل کرنے کیلئے غور و فکر کر رہا تھا کہ اچانک تازہ ترین بریکنگ نیوز کی اس خبر نے کہ کراچی میں ایم کیو ایم اور پا ک سر زمین پارٹی نے اپنے تمام باہمی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے آئندہ انتخابات ایک ہی پلیٹ فارم سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی تفصیلات شام کو منعقد کی جانے والی ایک جائنٹ پریس کانفرنس میں بیان کی جائیں گی۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے قائدین نے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اس بنیادی فیصلے پر عوام اور پارٹی کے اعلیٰ ترین مفاد اور عوامی مینڈیٹ کو تقسیم ہونے سے بچانے اور محفوظ رکھنے کی غرض سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم کراچی کے موجودہ سربراہ جناب فاروق ستار کے اس موضوع پر مثبت اثرات ان کے ٹی وی اس اصولی تائید کی صورت میں سننے کے بعد اور پاک سر زمین پارٹی کے لیڈر جناب مصطفی کمال کی باڈی لینگوئج اور مسکراہٹوں سے لبریز خیالات بھی کنفرم کرتے ہیں کہ دونوں لیڈروں میں اپنے اپنے سیاسی پارٹی لیڈروں کے مشورے اور رضا مندی کے بعد یہ اہم سیاسی فیصلہ کیا ہے کہ آنے والے اگلے انتخابات میں وہ جب بھی ہو دونوں پارٹیاں ایک ہی پلیٹ فارم پر انتخابات کے میدان میں اتریں گی میں اسے ایک لازوال فیصلہ سمجھتا ہوں جس کے ملکی سیاست پر دور رس نتائج مرتب ہونگے۔ اکثر انتخابی اکھاڑے میں ٹکٹوں کی تقسیم صوبائی اور وفاقی سطح پر باہم مشورے سے ایک جوائنٹ الیکشن بورڈ نے کرنی ہے تو ظاہر ہے کہ پارٹی منشور بھی ایک ہی ہونا لازم ہے اگر ایسا ہونا ہے تو اتنے بڑے فیصلے ایک ہی جھنڈے تلے ہو سکتے ہیں جو دو مختلف ناموں سے دو سیاسی پارٹیوں کا مل کر ایک ہی ہانڈی میں دو باورچیوں کی پکائی ہوئی کھچڑی جیسا حشر ہوتا ہے۔ انگریزی کا ایک محاورا ہے کہ TOO MANY COOKS SPOIL THE BROTH ظاہر ہے کہ متوقع انتخابی پلیٹ فارم ایسی کھچڑی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے موجودہ ایم کیو ایم پارٹی اور پاک سر زمین پارٹی کو موجودہ دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک سیاسی وحدت میں پرونے کا کوئی فارمولہ تلاش کرنا ہو گا۔ فی الحال تادم تحریر دونوں پارٹیوں کے قائدین یہ پہلے سے گھڑا ہوا بیان دے رہے ہیں کہ تھوڑا وقت دیں آپ سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔ شام کی پریس کانفرنس کا انتظار کریں۔ دونوں پارٹیوں کے سرکردہ لیڈر مسکراہٹوں کے ساتھ یہی الفاظ دہرا رہے ہیں اور انداز بیان سے انتہائی مطمئن اور خوش نظر آتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہو گیا بلکہ اندر ہی اندر کافی دیر سے یہ کھچڑی پک رہی ہے کہ کراچی اور سندھ کی سیاست میں انقلاب برپا کر کے صوبائی وزارت اعلیٰ کو ہدف بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وفاقی سطح کی سیاست میں ہلچل پیدا نہ ہو۔ لیکن راقم کے خیال میں پاکستان کا اندرونی سیاسی ماحول جس میں برسر اقتدار سیاسی پارٹی نے بغیر کسی وجہ یا مجبوری کے انتخابات کے موقع پر اپنے آپ کو اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت بعض افراد کے خلاف نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ پوری حکومت کو خوامخواہ ان مقدموں کی دلدل میں پھنسا کر ملک میں مختلف اداروں کو سازشوں کے نام پر ایک نہ صرف غیر یقینی بلکہ قومی سلامتی کے لئے خطرہ کی صورت پیدا کر دی ہے۔ جس کے نتیجہ میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے اندر ایک انتشار کی صورت کا پیدا ہونا کوئی اچھا شگون نہیں ہے جس سیاسی جماعت کو دیکھیں اس کے اندر کسی نہ کسی سطح پر فارورڈ بلاک کے پروپیگنڈے نے ملکی سطح پر ایمان اتحاد اور تنظیم کو کھوکھلا کرنے کی ایک ایسی شرمناک مہم سازی شروع کر رکھی ہے جس کے پیچھے پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمن اور بہت سی غیر ملکی ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں۔اس لمحہ ہر ایک کی آنکھیں ٹیلی ویژن پر لگی ہوئی ہیں کہ شام کی پریس کانفرنس میں کیا فیصلے ہوتے ہیں۔ کیا دونوں پارٹیوں میں سے ایک پارٹی اپنا وجود ختم کر کے دوسری جماعت میں ضم ہو جاتی ہے یا دونوں جماعتیں اپنا اپنا وجود قائم رکھتے ہوئے اوپر کی سطح پر ایک سپریم باڈی کے سپرد قیادت کے فرائض سونپ دیتے ہیں۔ ایسے تجربے دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔

ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر دونوں پارٹیوں کے سینئر رہنما اپنی ذات سے ہٹ کر تدبر کا مظاہرہ کریں تو دونوں پارٹیاں اپنے اپنے پرانے ناموں سے دستبرداری کی قربانی دیں اور ایک نئے عزم کے ساتھ اپنی دونوں پارٹیوں کو ایک نیا باہمی قابل قبول نام دے کر دونوں پارٹیوں کے چوٹی کے رہنما باہمی مشورہ سے ایک نئے رہنما کے نام پر راضی ہو جائیں تو یہ ایک مثالی یادگار نئے اور روشن مستقبل کی طرف تاریخی قدم ہو گا۔ میرا دل کہتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے اندر ایسا کردار ادا کرنے کے لئے قابل رہنما موجود ہیں۔ موجودہ ہر دو پارٹی کے لیڈران کے چہروں سے جو اعتماد اور بلند عزم کی پھوٹتی ہوئی کرنیں ٹیلی ویژن پر میں نے دیکھی ہیں نہ جانے کیوں مجھے بغیر کسی وجہ کے میری چٹھی حس یہ کہتی ہے کہ صدیوں پہلے جب محمد بن قاسم کراچی کے ساحل پر جرم کا خاتمہ کرنے اور اندھیروں کو اسلام کی کرنوں سے روشن کرنے رب العزت نے اس کو سرزمین پر بھیجا تھا تو اسی کی رحمت سے اس سرزمین پر پاکستان نے جنم لیا تھا۔ میرا دل کہتا ہے کہ ایک دفعہ پھر اسی سرزمین سے اتحاد‘ ایمان اور تنظیم کی کرنیں پھوٹی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں برکت ڈالے گا اور انشاء اللہ کراچی میں برپا ہونے والا انقلاب پورے ملک کیلئے ایک نیا شگون ہو گا۔ پاکستان زندہ باد

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

ای پیپر دی نیشن