سیاسی دھند

دنیاکے بہت سے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی آج کل شدید دھند کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایک ہفتے تک سموگ کی بھی شدت رہی ہے مگر اب ایک دو دن سے دھند بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اس لیے ہوا میں نمی کا تناسب بھی بڑھ چکا ہے اور اب سموگ برائے نام ہی رہ گئی ہے۔ یا جتنا گندا فضا کو ہم بھی روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں اس کا کچھ حصہ ہمیں واپس مل جاتا ہے۔ یہ دھند چند ہفتوں کے بعد ختم ہو جائے گی مگر جو دھندملک کے سیاسی مستقبل پر چھائی ہوئی ہے اس کے چھٹنے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ 

بہت سے سیاسی پنڈت ملک میں ایک بار کسی انہونی کے انتظار میں ہیں۔ کوئی قبل از وقت الیکشن کی بات کر رہا ہے تو کسی کو الیکشن وقت مقررہ پر بھی ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔کوئی ٹیکنوکریٹس حکومت کو وقت کی ضرور ت سمجھتا ہے تو کسی کو دور سے بوٹو ںکی آواز یں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ بہت سی نادیدہ قوتیں کھل کر اپنا کردار ادا کررہی ہیں اور پاکستان میں شروع ہونے والے سیاسی سفر کو ایک بار پھر سے واپسی کا رستہ دکھا کے شخصی حکومت کی راہیں ہموار کرنا چاہ رہی ہیں۔ ان کے لیے ہمارے سیاست دان ہمیشہ کی طرح ناقابل اعتبار ہو چکے ہیں اور اس میں سیاست دانوں کی اپنی بھی بہت سی غلطیاں ہیں۔ کرپشن کے الزام گو ججز، جرنیلز، کاروباری طبقے سبھی پر لگتے رہتے ہیں مگر عدالتی کٹہرے کی زینت سیاست دان ہی بنتے ہیں۔ کال کوٹھڑیوں کے مہمان بھی سیاست دان ہی رہے ہیں۔
پانامہ میں بھی چار سو کے قریب پاکستانیوں کا نام سامنے آیا تھا مگر کارروائی صرف چند سیاست دانوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ سزا صرف میاں نواز شریف کا مقدر ٹھہری۔ جہانگیر ترین اور باقی سیاست دان بھی ایسے ہی الزامات کے سزاوار ہیں مگر لگتا ہے انہیں صرف گھسیٹا جا رہا ہے۔ پاکستان میں سیاست دان ہمیشہ سے استعمال ہوتے چلے آئے ہیں اور لگتا ہے اگلے کئی سالوں تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
ملکِ عزیز میں سیاست دانوں کے لیے ہر وقت آزمائش کا سا سماں رہتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب تک حکومت میں رہتے ہیں سیاست دان صرف خود کے بارے میں سوچتے ہیں۔ عوامی ووٹ کی طاقت سے منتخب ہونے والے ہمارے لیڈر دورانِ اقتدار عوام کو شکل دکھانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایک بار منتخب ہو جانے کے بعد خود کو کوئی الگ مخلوق سمجھ لیتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے گوجرانوالہ میں ایک ایم پی اے جب کسی تقریب میں پہنچے تو اہل ِ علاقہ ان کے استقبال کے لئے تیار نہ تھے۔ ایم پی اے صاحب غصے سے آگ بگولہ ہو گئے۔ انہوں نے حاضرینِ محفل کو لگی لپٹی رکھے بغیر سخت باتیں سنا دیں جبکہ عوام کا کہنا تھا کہ محترم ایم پی اے صاحب نے تو علاقہ میں کوئی ترقیاتی کام کروائے ہیں نہ اپنے دفتر میں عوامی مشکلات سننے کے لیے وقت دیتے ہیں۔
یہ ایک مثال نہیں ہے ہمارے بہت سے پارلیمنٹیرین جب اسمبلی میں جا کے حلف اٹھا لیتے ہیںتو پھر عوام کے پاس تو کیا اسمبلی جانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ بات بھی صاف ہے کہ ہمارے بہت سے سیاسی رہنما اپنی دولت اور طاقت بڑھانے کے لیے رکن اسمبلی بنتے ہیں۔ پارٹیوں میں ایک بار شامل ہو جانے والے جب تک پارٹی لیڈروں کے سامنے جی حضوری کرتے ہیں انہیں اگلا ٹکٹ ملتا رہتا ہے۔ ہمارے سیاست دان عوام کو ماموں بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیںدیتے ہیں۔
ہر وقت دوسروں پر کرپشن، ملک دشمنی کے الزامات لگاتے ہیں۔ پچھلے ماہ جب سینٹ میں نااہل شخص کے لیے پارٹی لیڈر بننے کا بل پاس کیا جا رہا تھا اگر اس وقت پاکستا ن تحریک انصاف کے لوگ سینٹ میں حاضر رہ کر دورانِ ووٹنگ اس بل کی مخالفت میں ووٹ ڈالتے تو انہیں میاں صاحب کی نااہلی کی شکل میں پارٹی سربراہ بن جانے کی شکایت لے کے عدالت نہ جانا پڑتا۔
مگر چونکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین محترم جناب عمران خان کے سر پر بھی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے، انہیں پتہ ہے کہ وہ بھی ایسے ہی الزامات کے چلتے پارٹی قیادت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اس لیے انہوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینٹ میں میاں نواز شریف کے پارٹی سربراہ بننے والے بل کے وقت واک آوٹ کرکے بل کو پاس ہونے دیا لیکن اب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے عدالتوں میں کیس لے جا رہے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر ہر روز آگ و خون کی ندیاں بہتی تھیں۔ اس سیاسی حکومت نے کراچی شہر کو ایک بار پھر امن کی طرف واپس لے جانے کا مشکل سفر کامیابی سے شروع کیا ہے۔
ایم کیو ایم کے ظلم کا باب بند ہو چکا ہے مگر اب پھر کسی نادیدہ قوت کے حکم پر فاروق ستار اور مصطفی کمال ایک ہی کشتی میں سوا ر ہو رہے ہیں۔ ابھی انہیں خود نہیں معلو م کہ اس کشتی کا ملاح کو ن ہو گا۔ بھنور میں پھنسی ایم کیو ایم کو نئی زندگی دینے کے لیے نئے نام سے نیا لیڈر دیئے جانے کی بھی خبریں گردش میں ہیں۔ تحریک انصاف جس تیزی سے ابھری تھی اس سے بھی کہیں زیادہ تیز رفتاری سے اس کا گراف نیچے گرا ہے۔
جب سے میاں نواز شریف کو عدالت سے نااہلی کا سرٹیفکیٹ ملا ہے لگتا ہے عمران خا ن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں رہ گیا۔ جو اسے یہاں تک لائے تھے انہوں نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے ہیں۔ بوکھلاہٹ میں خان صاحب دھند کے موسم میں بھی جلسے کیے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اگر زرداری کو خود پیچھے کر دے تو بھٹو کے نام پر ایک بار بلاول اور بختاور کو ووٹ مل سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں پیپلز پارٹی کا حال پہلے سے بھی برا ہو گا۔
عدالت سے نااہلی کے بعد اگر میاں نواز شریف صاحب بروقت میاں شہباز شریف کو پارٹی کا سربراہ بنا دیتے تو (ن) لیگ کی سیاسی کشتی بھنو ر میں پھنستی نہ جماعت میں چہ منگوئیاں ہوتیں اور نہ ہی خاندان میں دراڑیں پڑنے کا تاثر ملتا لیکن لگتا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے ساتھ سب کو لے کر جائیں گے۔
ان کے بیانات کے بعد عدالتوں کی طرف سے کسی نرمی کا رویہ سامنے آنا ناممکن ہوتا جارہا ہے، انہیں سیاست بھول چکی ہے، وہ اس وقت خود کو بچانا چاہتے ہیں چاہے پارٹی ڈوب جائے، چاہے ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہو جائے۔ موسمی دھند تو چھٹ جائے گی مگر سیاسی دھند چھٹنے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے، اللہ خیر کرے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...