تھوڑے پرانے زمانے میں ملک کا دفاع صرف فوج کے ذمے ہوتا تھا مگر موجودہ زمانے میں ملک کا دفاع فوج کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے شعبوں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید دنیا میں لڑائی اور جنگ کے فزیکل محاذوں کے ساتھ ساتھ نان فزیکل محاذ بھی وجود میں آچکے ہیں جن میں اہم ترین محاذ پراپیگنڈہ کہلاتا ہے۔ یہ اتنا خطرناک محاذ ہے کہ پراپیگنڈے کے محاذ پر شکست خوردہ ممالک فزیکل محاذ پر جیتی جنگ بھی ہار جاتے ہیں۔ پراپیگنڈے کی لڑائی میڈیا، سِول سوسائٹی اور دانشور لڑتے ہیں۔ جو ملک اپنے دفاع کے لئے میڈیا، سِول سوسائٹی اور دانشوروں کو درست حکمت عملی کے ساتھ استعمال نہیں کرسکتے یا اُن کا یہ طبقہ کمزور اور زیادہ ویژنری نہیں ہوتا، اُن ممالک کی فوج کو فزیکل محاذوں پر کامیابیوں کے باوجود ملک کے دفاع میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی داستان بھی کچھ ایسی ہی الٹی سیدھی تحریروں سے اٹی پڑی ہے۔ ہم پاکستان کے فزیکل محاذوں پر غیرواضح یا کم کامیابیوں پر تنقیدیں پڑھتے رہتے ہیں لیکن کیا بیرونی محاذوں پر کسی بڑی سفارتی اور سیاسی کامیابی کی کوئی خوشخبری کبھی ہم نے سنی؟ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں امریکی یا سوویت یونین سے سفارتی تعلقات میں توازن ہو، تاشقند یا شملہ معاہدہ ہو، سیاچن یا کارگل کے معاملے پر انٹرنیشنل رائے ہو، سمجھوتہ ایکسریس میں ہلاکتیں یا بمبئی میں دہشت گردی کے واقعات ہوں، بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سکھوں کا قتل عام یا سازش کے ذریعے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا بھارتی وزیراعظم مودی کا اعتراف ہو، بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے جنیوا اور لندن میں بلوچستان کے حوالے سے کئے جانے والے پراپیگنڈے کی مہم یا افغانستان میں بھارتی قونصلیٹس کے ذریعے پاکستان کے اندر کی جانے والی دہشت گرد سرگرمیاں ہوں یا ان جیسی بیشمار دوسری باتیں جو انٹرنیشنل کمیونٹی کو سمجھانی ہوں، کیا اس سلسلے میں کبھی کسی نان فزیکل محاذ پر ہمیں کوئی کامیابی نصیب ہوئی ہے؟ اقوام متحدہ میں بھی ہماری حیثیت ہمارے مخالف بھارت سے کم ہے۔ ہمیں اقوام متحدہ میں اگر کوئی تھوڑی بہت کامیابی کبھی ملی بھی تو وہ چین کے مرہونِ منت تھی جبکہ بھارت کی کامیابیوں کا سلسلہ بین الاقوامی برادری میں اُس کی اپنی ذاتی لابنگ کے باعث ہے۔ پراپیگنڈے یا نان فزیکل محاذ پر انٹرنیشنل برادری میں پاکستان اور بھارت کے عدم توازن پر غور کریں تو یہ صاف لگے گا کہ بھارتی سفارتکاری پاکستانی سفارتکاری سے بہتر ہے۔ اسی لئے اس حوالے سے ہم ہمیشہ اپنی حکومتوں کوہی کوستے آئے ہیں لیکن گہرائی میں جاکر جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ سفارتکاری محض ٹیکنیکل کام ہے جو حکومتوں کے درمیان ہوتا ہے جبکہ بین الاقوامی عوام کی رائے اس ٹیکنیکل سفارتکاری سے ہٹ کر بھی کسی اور طریقے سے متاثر ہوتی ہے۔ وہ طریقہ بین الاقوامی عوام کے درمیان بیٹھ کر میڈیا، سِول سوسائٹی اور دانشوروں کے ذریعے اپنی بات کرنے اور اپنا نقطہ نظر بین الاقوامی عوام کو سمجھانے کا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی دشمنی ایک زندہ تاریخ ہے جسے وہ نان فزیکل محاذ پر بھی بھرپور طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کو بھارت کے نان فزیکل محاذ یعنی انٹرنیشنل کمیونٹی کے سامنے پراپیگنڈے کے توڑ میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی جس کی ایک بڑی مثال کشمیر ہے۔ پاکستانی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اورتسلط کے حوالے سے دن رات خبریں نشر کرتا ہے لیکن پاکستانی میڈیا کو بین الاقوامی سطح پر وہ قبولیت حاصل نہیں جو بھارتی میڈیا کو ہے۔
پاکستانی میڈیا، سِول سوسائٹی اور دانشوروں کے مذکورہ موقف کی انٹرنیشنل عوام میں غیرمقبولیت کی وجہ انٹرنیشنل عوام کے سامنے اِن کا ذاتی حیثیت میں پاکستانی موقف پر بھرپور بات نہ کرنا ہے۔ یعنی جب پاکستانی میڈیا پرسنز اور سِول سوسائٹی بین الاقوامی دوروں پر جاتے ہیں تو وہاں مختلف فورمز پر پاکستان کی صرف اندرونی سیاسی صورتحال پر ہی گفتگو کرتے ہیں۔ شاید ہی کبھی اِن افراد میں سے کسی نے بین الاقوامی فورم پر بھارت کی جارحیت کے حوالے سے بھرپور نجی گفتگو کی ہو۔ اسی طرح پاکستان کے لکھاری، فنکار، شاعر، ادیب اور دانشور جب نجی بیرونی دوروں پر جاتے ہیں تو انہیں صرف اپنی پراڈکٹ، کتاب یا شاعری وغیرہ یعنی ذاتی مشہوری کی فکر ہوتی ہے۔ پاکستان کے کتنے دانشور ایسے ہیں جنہوں نے نجی بین الاقوامی فورمز پر بھارتی جارحیت کے حوالے سے پاکستانی نظریئے کو بیان کیا ہو؟ جبکہ دوسری طرف بھارت کے میڈیا پرسنز یا دانشور پوری دنیا میں اپنے ملک کے حق میں پراپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً بھارت کے رائٹر اور ادیب ششی تھرور کو ہی لیں۔ وہ دنیا کے ہر فورم پر پاکستان کے خلاف آگ اگلتے ہیں جبکہ پاکستان کے کچھ دانشوروں کی کم ظرفی دیکھئے کہ اپنا قد انٹرنیشنل سطح پر بڑھانے کے لئے پاکستان کی ہی مخالفت کرتے ہیں۔ ان میں سرفہرست حسین حقانی کا نام لیا جاسکتا ہے جو پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لئے بھارت سے بھی بازی لے جاتے ہیں۔ جدید دنیا میں ملکوں کے درمیان فزیکل لڑائی کی بجائے نان فزیکل لڑائی زیادہ اہم ہوتی جارہی ہے جو غیرسرکاری میڈیا اور غیرسرکاری دانشوروں کے بل بوتے پر لڑی جاتی ہے۔ پاکستان کا یہ پہلو بہت کمزور ہے اور اس پر ابھی تک توجہ بھی نہیں دی جارہی۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت حاصل کرنے کے لئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بذاتِ خود میدان میں آنا پڑا جس کی مثال اُن کا حالیہ دورہ ایران ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مندرجہ بالا گفتگو کا تعلق ٹریک ٹو ڈپلومیسی یا پارلیمانی وفود سے ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ پاکستان بھارت کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے میڈیا پرسنز، سِول سوسائٹی اور دانشوروں کو اس طرح تیار کرے کہ وہ بیرون ملک جاکر اندرونی ملکی سیاست اور ذاتی مشہوری کی بجائے بھارتی پراپیگنڈے کا جواب دیں۔ اگر ایسا ہوا تو اِن پاکستانی میڈیا پرسنز، سِول سوسائٹی اور دانشوروں کی بات بین الاقوامی برادری پاکستانی سفارتکاری سے زیادہ سنے گی اور رائے عامہ پاکستان کے حق میں ہموار ہوگی۔ یہاں یہ تجویز بہت اعتماد کے ساتھ دی جارہی ہے کہ پاکستان کے میڈیا پرسنز، سِول سوسائٹی اور دانشور بین الاقوامی سطح پر صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ اگر انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایک ہی ٹاسک دے کر بیرون ممالک بھیجا جائے تو یہ پاکستان کے لئے وہ کام کرسکتے ہیں جو ہمارا دفتر خارجہ گزشتہ 70 برسوں میں نہیں کرسکا۔