آج سے تین چار ہزار قبل قدیم یونان میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ انسانی دنیا میں ہر کام مختلف دیوتائوں کی مرضی سے ہوتا ہے۔ دیوتا خود تو اولمپس پہاڑ کی چوٹی پر رہتے ہیں اور وہاں خوب کھاتے پیتے، ہنستے کھیلتے اور موج کرتے ہیں۔ جب وہ کھڑکھڑا کر ہنستے ہیں تو لوگوں پر بجلی گرتی ہے اور جب ایک دوسرے پر کھیل ہی کھیل میں پانی گراتے ہیں تو بارش ہوتی ہے۔ اسی پہاڑ پر سب سے بڑا دیوتا زیوس کا بت نصب تھا جو کبھی دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تھا۔ اب وہاں دیوتا کا مجسمہ نہیں رہا۔
دنیا میں بڑے بڑے دیوتائوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ مستقل نہیں رہتے اور باقی رہنے والی خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ اسی اولمپس پہاڑی کے دامن میں اولمپک کھیلیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ ان دیوتائوں کے علاوہ ’’دیویاں‘‘ بھی ہوا کرتی تھیں۔ انصاف کی دیوی کا بت اس طرح بنایا جاتا تھا کہ اس کے دائیں ہاتھ میں انصاف کا نشان ترازو ہوتا تھا جس کے پلڑے دونوں جانب برابر ہوتے تھے۔ یعنی اس نے دونوں فریضوں سے برابر کا سلوک کرنا ہے۔ قدیم یونان کے ہی عظیم ترین ڈرامہ نگار ایسکائی لیس نے ایک فقرہ یوں بولا تھا کہ ’’دیوتا انسان کی سازی زندگی خوشی اور غمی سے کھیل کھیلتے رہتے ہیں، انسان کی موت پر یہ کھیل ختم اور انصاف مکمل ہو جاتا ہے‘‘۔
آج کا سوال یہ ہے کہ حکمران کا احتساب تو بہت بعد میں شروع ہوا اور اس احتساب پر اٹھنے والے سوالات بھی بہت بعد کے ہیں یہ کل کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ نواز شریف سچائی کے ساتھ سامنے نہیں آئے اور عدالت کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی اور نواز شریف فرما رہے ہیں کہ جج صاحبان بغض سے بھرے ہیں اور ان کے الفاظ تاریخ کا سیاہ باب ہونگے۔ مگر اس سے پہلے تو یہ ہوا تھا کہ نواز شریف کو تین مرتبہ حکمرانی ملی تھی اور انہیں دیوتا بن کر مسند اقتدار پر براجمان ہونے کا موقع ملا تھا۔ جب وہ کھلکھلا کر ہنستے تھے اور پھر کھیل ہی کھیل میں دولت اِدھر اُدھر روانہ کی جاتی تھی تو اس قصے میں انصاف کی دیوی کے ہاتھوں میں پکڑے ترازو کے پلڑے عوام اور حکمران کے درمیان برابر نہیں تھے۔
لہٰذا حکمران تو انصاف کا پلڑا اپنے اثاثوں کو جمع کرنے اور عوام کے مسائل اور غربت کے ساتھ برابر نہ سہی مگر تھوڑا سا قریب رکھنا چاہئے تھا۔ یہ زمین آسمان کا فرق ان کی ’’رہبری‘‘ کے سامنے انصاف کے سوال پر جا کر رکتا ہے۔ نواز شریف، مریم نواز اور ان کے صاحبزادوں، داماد یا پھر اسحق ڈار ان سب کے سامنے تو انصاف ہونے یا نہ ہونے کا سوال تو بہت بعد کا ہے۔ پہلے تو پاکستان بھر کی غریب عوام کا سوال سامنے ہے ، بقول ناول نگار کہ ’’دیوتا انسان کی ساری زندگی خوشی اور غمی سے کھیل کھیلتے رہتے ہیں اور انسانوں کی موت پر یہ کھیل ختم اور انصاف مکمل ہوتا ہے‘‘۔ اس لئے پہلے حکمرانوں کی ’’رہبری‘‘ کا سوال ہے پھر ’’منصفی‘‘ کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ آجکل شہباز شریف شعر نظر نہیں آتے ان کے بیٹے حمزہ شہباز بھی خاموش ہیں جبکہ مریم صفدر یہاں بھی یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ وہ میرے آئیڈیل ہیں۔ دو روز قبل علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال نے کہا تھا کہ اس وقت بیرسٹر اقبال کو ہونا چاہئے تھا۔ نواز شریف جب ’’تیری منصفی کا سوال ہے‘‘ کہہ کر لفظ ’’حکمرانی‘‘ منصفی میں بدلتے ہیں تو اندازہ کر لیں کہ آج بیرسٹر علامہ اقبال یا بیرسٹر محمد علی جناح ہوتے تو ملک میں غریبوں کی اس حالت اور حکمرانوں کی امارت کے فرق کی نا انصافی اور ملک کی موجودہ معیشت کے حالات پر کیا کہتے؟
تازہ ترین حالات میں آج اسلام آباد نئے ایئر پورٹ میں کروڑوں کے گھپلے نکل رہے ہیں۔ پی آئی اے، سٹیل مل اور دیگر ادارے حکمرانوں کی کرپشن اور اقرباء پروری کی نذر ہو چکے ہیں تو خدا کا شکر ادا کریں کہ قائداعظم یا علامہ اقبال کے عہد میں یہ لوگ زندہ نہیں ہیں۔ پروٹوکول کے مارے ہوئے ان کھوکھلے حکمرانوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان کے اور ان کی اولادوں اور خاندانوں کے انداز حکمرانی اور لائف سٹائل کا ایک غریب نوجوان یا ایک غریب بچی پر کیا اثر پڑے گا؟ ایسے میں یہ ’’لیپ ٹاپ‘‘ بانٹ کر طالب علموں کی بظاہر مدد کی گئی جبکہ حقیقی مسائل اپنی جگہ پر منہ چڑاتے رہ جاتے ہیں اور انہی نوجوانوں کو کہیں نوکریاں نہیں ملتیں۔ اور اگر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا تو کرپشن کا سلسلہ بھی کہیں کا کہیں نکل جاتا۔ جبکہ ان لوگوں نے تو اپنے ٹھکانے بھی باہر کے ملکوں میں بنائے ہوئے ہیں اور بچوں کو بھی ’’محفوظ مقامات‘‘ پر پر آسائش انداز میں اپنے ملک کی دکھوں اور غموں سے دور رکھا ہوا ہے اور اب تو سعودی عرب میں شاہی خاندان اور بادشاہت خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ نواز شریف نے وہاں کوشش کر کے دیکھ لیا کہ اب وہاں سے مدد آنا دشوار ہے۔ برسوں کی پرانی بادشاہت کا خطرے میں پڑ جانا موجودہ عہد میں اس بات کی دلیل ہے کہ اب شاہی اور بادشاہی اور نسل در نسل حکمرانی کا سلسلہ کہیں بھی چل نہیں سکتا۔ کیونکہ اس قسم کے رویوں میں عوام کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرنا دشوار ہوتا ہے اور عوام اور حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کے درمیان فرق بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ملکوں اور قوموں کو باپ دادا کی میراث تصور کر لیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں قائداعظم کی بیٹی دینا جناح کا انتقال ہوا۔ وہ یہاں آ کر رہتیں تو عوام قائداعظم کی وجہ سے ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے اور وہ پاکستان پر حکمرانی پر اپنا حق بھی جتا سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں سوچا اور ان کے عظیم والد نے جو کیا اس کو باپ دادا کی جاگیر کی بجائے ایک بڑے اور عظیم مقصد کی تکمیل اور نیکی کے ساتھ تصور کیا۔ محترم نواز شریف چاہیں تو مریم صفدر اور ان کے صاحبزادے کو یہ مثال دے سکتے ہیں کہ خدمت صرف پاکستان کی نہیں بلکہ انسانیت کی کرنا شروع ہو جائیں تو اچھا ہے۔