کئی قرض چکانے ہیں ہم کو

یہ قصہ اْ س وقت سے شروع ہوتا ہے جب ابھی پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ اْس وقت معاشی صورتحال نہایت کمزور تھی اور ساری معیشت کا انحصار زراعت پر ہی تھا۔ ظاہر ہے زراعت بھی جدید طریقہ سے نہیں کی جاتی تھی کیونکہ اتنے وسائل ہی نہ تھے اور پرانے طریقوں کی وجہ سے پیداوار بھی خاطر خواہ نہ تھی۔ ملکی ضروریات بھی بمشکل ہی پوری ہوتی تھیں اور غیر ملکی منڈیوں میں بیچ کر زرمبادلہ کمانے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ ڈالر اْس وقت بھی ملکی کرنسی سے تین گناتھا۔ آہستہ آہستہ صنعت نے بھی ترقی کی اور ملکی معیشت میں بہتری آنا شروع ہوگئی۔ پیداوار میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ عوام کی خواہشات بھی بڑھنے لگیں اور یوں درآمدات و برآمدات کا سلسلہ شروع ہوا۔ معیشت قدرے بہتر تو ہوئی تھی لیکن وصولیاں زیادہ ہونے کے باعث ادائیگیاں بھی بڑھنے لگی تھیں۔ شروع میں کچھ ممالک نے پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے بہتر ملک سمجھا۔ لیکن رفتہ رفتہ سیاسی اْتار چڑھاؤ نے غیر ملکیوں کے اس رْجحان کو تیزی سے کم کرنا شروع کردیا۔ جس کے باعث اْنہوں نے دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرنا شروع کردی۔ ملکی معیشت کو زوال آنا شروع ہوگیا۔ حکومتوں کی ناکام پالیسیوں اور غلط فیصلوں نے ملک میں سیکورٹی خدشات پیدا کردیئے جن کے باعث ملک میں انرجی کی قلت ہونے لگی۔ دوسرے ممالک سے منگوائی جانے والی اشیائ￿ میں اضافہ ہوا تو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہونی شروع ہوگئی۔ بظاہر پاکستان نے بہت ترقی بھی کی، پلازے بن گئے، سڑکیں تعمیر ہوگئیں، ملکی معیشت بہتر نظر آنے لگی لیکن اصل میں ہر پاکستانی قرضہ میں ڈوب چکا تھا۔ قرضوں کی ادائیگیوں کا وقت آتا تو ملک میں اتنے وسائل اور پیسہ نہ ہونے کے باعث پہلا قرضہ ادا کرنے کیلئے مزید قرض لینے کی نوبت آجاتی، روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مزید زوال پذیرہونا شروع ہوگیا۔ وزارت خزانہ نے قرضوں سے متعلق پالیسی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 30 ستمبر2015ئتک پاکستان پر قرضہ181 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے اور رواں سا ل میں یہ بڑھ کر800ارب تک پہنچ چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر تک پاکستان کے مقامی قرضے127کھرب تک جا پہنچے ہیں۔ جبکہ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ51ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کے قرضے اس وقت پاکستان کی معیشت سے60 فیصد زیادہ ہیں اور اس حالت میں ترقی کی راہ میں محض رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں۔ آسانیوں کا تصور مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ صرف گزشتہ ایک سال کے دوران ایشائی ترقیاتی بنک اور ورلڈ بنک سے بھی ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرضے لئے جاچکے ہیں اور یوں مجموعی قرضوں کا حجم ساڑھے اْنیس ہزار ارب روپے غیر ملکی اور ساڑھے بارہ ارب مقامی قرضہ ہے۔ ایک بہت دلچسپ رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں قرضہ جات کے حوالے سے پاکستان کو آٹھ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آئیے ذرا اس رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں۔قیام پاکستان سے ایوب خان کے مارشل لاء تک پاکستان پر کل قرضہ تقریبا35کروڑ ڈالر تھا۔ یعنی پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی قرضہ لینے کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ دوسرا دور ایوب خان کا دور ہے جس میں پاکستان پر17کروڑ ڈالرکاقرضہ تھا۔ ایوب خان نے تقریبا180 ملین ڈالربیرونی قرضہ ادا کرکے پاکستانی کل قرضہ کم کروا دیاتھا۔ بلکہ پاکستان نے پہلی بار دوسرے ممالک کو قرضے بھی دینے شروع کردیئے تھے اسے موجودہ صورتحال کے تناظر میں سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان نے جرمنی کو بھی قرض دیا تھا۔ تیسرا دور بھٹو اکا تھا۔ جس میں پاکستان پر بیرونی قرضہ 63کروڑ 41لاکھ ڈالر تھا۔ بھٹو کے دور میں پاکستان نے بھاری قرضہ جات لینے شروع کردیئے۔ اگرچہ اس دور میں ایسے کوئی بڑے منصوبہ جات بھی نظر نہیں آتے۔ جن کے باعث قرض اْٹھانے کی نوبت پیش آتی۔ چوتھا دور جنرل ضیاء الحق کا دور حکومت ہے۔ بیرونی قرضہ ایک ارب20کروڑ 13 لاکھ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ جنرل ضیاء الحق واحد فوجی حکمران تھا جس نے تقریبا65کروڑ 72لاکھ ڈالرکے بیرونی قرضے لئے۔ لیکن جنرل گیارہ سال تک روس جیسی سپر پاور کے سامنے ڈٹا رہا۔ ایٹمی پروگرام کی تکمیل اور ایف16 طیارے خریدنے کے علاوہ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے گئے۔ اسکے بعد بے نظر اور نواز شریف کا دور آجاتا ہے جس میں کل بیرونی قرضہ 30 ارب ڈالر ڈالر ہوچکا ہے۔ دونوں حکومتوں نے صرف دس سال کے عرصہ میںتقریباً 27ارب ڈالر کا بہت بڑا قرضہ مزید اپنے ذمہ لے لیا۔ اس کے بعد پرویز مشرف کا دور حکومت شروع ہوتا ہے جس میں کل بیرونی قرضہ34ارب ڈالر ہے۔ لیکن پرویز مشرف کے دور میں قرضوں میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی۔8سال میں تقریبا5ارب ڈالر کے ریکارڈ قرضے کم کروائے گئے۔آصف زرداری کا دور شروع ہوتا ہے جس میں کل بیرونی قرضہ48ارب 10کروڑ ڈالر ہے، آصف زرداری نے صرف5سال میںچودہ ارب 10کروڑ ڈالر کا قرضہ لے کرنیا ریکارڈ قائم کردیا۔ اس کے بعد دوبارہ نواز شریف کا دورشروع ہوتا ہے جس میں35ارب 90کروڑ ڈالر کا کمر توڑ قرضہ لیا گیا۔ چند ماہ بعد پاکستان کو صرف سود کی مد میںگیارہ ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ آخر یہ کون ادا کریگا؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟شائد وہی کچھ جو ہم پچھلے71سال سے دیکھتے آرہے ہیں!۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...