پاکستان کا قومی کھیل موجودہ وقت میں کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستان ہاکی فیڈریشن، ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے، ہمارے یہ کھلاڑی حال میں ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے آئے ہیں۔ پوری دنیا نے پاکستان سے ہاکی سیکھی لیکن آج وہ وقت آ گیا ہے کہ یورپی ٹیمیں ہم سے بہت زیادہ آگے نکل چکی ہیں جس کی بڑی وجہ ان ٹیموں اور منیجمنٹ کا ڈسپلن ہونا ہے۔ افسوس پاکستان میں اس کھیل کو تنقید نے آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ کوئی پاکستان کے ساتھ کھیلنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ پماکستان ٹیم رواں ماہ کے اختتام پر بھارت میں منعقد ہونے والے عالمی کپ ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے جا رہی ہے۔ میگا ٹورنامنٹ 28 نومبر سے 16 دسمبر تک بھارت کے اوڑیسا ڈسٹرکٹ کے بھہبنشور شہر میں کھیلا جا رہا ہے۔ پانچ براعظموں کی 16 ٹیمیں اس میں حصہ لے رہی ہیں جنہیں چار مختلف گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے پاکستان ٹیم کو گروپ ڈی میں ہالینڈ، جرمنی اور ملائیشیا کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ اگر پاکستان ٹیم کے پول پر نظر ڈالی جائے تو یہ اس سخت پول ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس گروپ میں تین ٹیمیں ورلڈ چیمپیئن کا تاج اپنے سر سجا چکی ہیں۔ پاکستان ٹیم کو سب سے زیادہ چار مرتبہ عالمی چیمپیئن ہونے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ نیدر لینڈ تین مرتبہ اور جرمنی دو مرتبہ یہ اعزاز حاصل کر چکی ہے۔ گروپ ڈی میں شامل چوتھی ٹیم 1975ءکے دوسرے ورلڈ کپ میں چوتھی پوزیشن حاصل کر سکی تھی۔ پاکستان کا قومی کھیل اس وقت سخت تنقید کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ پاکستان کے وہ کھلاڑی جنہوں نے کسی نہ طرح پاکستان کی اس کھیل میں نمائندگی کر رکھی ہے اب عہدوں کے حصول کے لیے فیڈریشن اور کھلاڑیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بریگیڈئر (ر) خالد سجاد کھوکھر نے جب سے فیڈریشن کا چارج سنبھالا ہے اس وقت سے اس کھیل کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ ہاکی کے کھیل کا شمار بھی دنیا کے مہنگے ترین کھیلوں میں ہونا شروع ہو گیا ہے جس میں کسی بھی ٹیم کا بیرونی دورہ آسان نہیں رہا ہے، کسی بھی غیر ملکی دورے کے لیے لاکھوں نہیں اب کروڑوں میں اخراجات آتے ہیں۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے جس کی بنا پر اس کا تمام دارومدار ہی حکومتی امداد پر ہے۔ فیڈریشن کو چاہیے کہ وہ آئین میں تبدیلی لاتے ہوئے اس میں مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کا اضافہ کیا جائے تاکہ حکومت کے علاوہ پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کی مدد سے اس کھیل کو ترقی دی جا سکے لیکن افسوس گذشتہ دو تین دہائیوں سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ہر مرتبہ فیڈریشن کو اپنے مالی معاملات کے حل کے لیے حکومت کی طرف ہی نظریں اٹھا کر دیکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے عالمی کپ ٹورنامنٹ کی تیاری کے لیے 26 کھلاڑیوں کو تربیتی کیمپ میں طل کر رکھا ہے اگلے تین سے چار روز میں میگا ایونٹ کے لیے پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کا اعلان کر دیا جائے گا۔ کیمپ میں شریک ہر کھلاڑی کی کوشش ہوگی کہ وہ ورلڈ کپ کے قومی سکواڈ میں جگہ بنائے۔ مالی مسائل کی وجہ سے پاکستان ہاکی ٹیم کے غیر ملکی کوچ رولنٹ اولٹمینز ایشین چیمپیئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ سے قبل ہی قومی ٹیم کو خیرباد کہہ چکے تھے اس کے بعد فیڈریشن نے ٹیم کے منیجر حسن سردار کو منیجر سمیت ہیڈ کوچ کی ذمہ داریاں سونپ دی۔ ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں فائنل تک رسائی اور ٹاس پر گولڈ میڈل کی حقدار قرار پانے والی ٹیم کے لیے ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان ہاکی سے وابستہ بڑے خاندان کے نام کے بڑے کھلاڑی توقیر ڈار کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا ہے جبکہ معاون کوچز میں اولمپیئن دانش کلیم اور اولمپیئن ریحان بٹ شامل ہیں۔ حس سردار ورلڈ کپ میں صرف ٹیم مینجر کے فرائض انجام دینگے۔ پاکستان ہاکی ٹیم کے ہیڈ کوچ اولمپیئن توقیر ڈار نے ورلڈ کپ کی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔ جس میں وہ گراونڈ کے علاوہ قومی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ ان سے خصوصی گفتگہ ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کھلاڑیوں کو کوچنگ نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ یہ ٹیم ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا قومی کھیل اس وقت مسائل میں گھرا ہوا ہے جس کو نکالنے کے لیے حکومتی سپورٹ کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مالی مسائل سے پریشان کھلاڑیوں کی اگر ضروریات کو پورا نہ کیا گیا تو یہ دعویٰ کرنا کہ ہم چاند سے تارے توڑ لائیں گے کہنا عبث ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ فنڈز کا ایشو بھی حل ہوجائے گا۔ بھارت میں شیڈول ورلڈکپ کے لئے قومی ٹیم کے کیمپ پر بات کرتے ہوئے توقیر ڈار کا کہنا تھا کہ ہماری عزت ہاکی سے ہے اور ہم اگر ہاکی نا کھیلتے تو کنڈکٹر لگے ہوتے۔ ہاکی پلیئرز ہونے کی وجہ سے فخر محسوس کرتے ہیں۔ حسن سردار کے ساتھ کام کرنے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ جس ماحول میں یہ کھلاڑی ہاکی کھیل رہے ہیں وہ جہاد کر رہے ہیں۔توقیر ڈار نے کہا کہ ہاکی کا بیڑہ غرق ہم لوگوں نے خود کیا ہے، ہاکی فیڈریشن کو جاب سینٹر بھی خود بنایا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہاکی میں جن کو چھٹی کروا دی جاتی ہے وہ گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ قومی ٹیم کی عالمی درجہ بندی میں کوئی بھی نمبر ہو، ہمیں نتیجہ اس دن معلوم ہوتا ہے جب پرفارم کرتے ہیں۔ ہم سونے یا چاندی کا میڈل لائے تو بھی ملک کا وزیر اعظم اور کوئی حکومتی عہدیدار ملنے نہیں آیا۔ چیف کوچ نے کہا کہ ماضی میں ہاکی کھلاڑی کی بہت عزت تھی اب تو بھکاری بنا دیا ہے۔ جو بھی کھلاڑی اوپر آئے گا وہ گراس روٹ سے آئے گا۔ میں اکیڈمی چلاتا ہوں اور ہم نے تمام اخراجات خود برداشت کئے۔ ان کھلاڑیوں کو پیار کی ضرورت ہے کوچنگ کی ضرورت نہیں ہے۔