آج کا جشن میلادالنبی ﷺ‘ کرتارپور راہداری کا افتتاح اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ
سرور کائنات‘ محسن انسانیت‘ رحمت للعالمین‘ ختم رسل‘ آقائے دو جہاں نبی ٔآخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادتِ باسعادت آج 10 نومبر کو پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے۔ مسلمانانِ عالم 12 ربیع الاول کا دن اپنے نبی ٔ پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کے اظہار کیلئے عیدمیلاالنبی کی صورت میں مناتے ہیں اور اس دن اپنے اپنے انداز میں جشن منا کر اور خوشیوں کا اہتمام کرکے پیغمبرِ اسلام رحمۃ للعالمین صلی للہ علیہ وسلم کے حضور سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آج اسی مناسبت سے فرزندانِ توحید اور غلامان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ملک بھر میں محافل میلاد منعقد کرکے اور گلیوں‘ بازاروں‘ شاہراہوں‘ مساجد اور گھروں کو برقی قمقموں‘ سبز جھنڈوں‘ جھنڈیوں اور روضۂ رسولؐ کے ماڈلز کے ساتھ سجا کر عید میلاالنبی منائیں گے۔ آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے حضرت نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے خصوصی اشاعتوں اور پروگراموں کا اہتمام کیا ہے جبکہ سرکاری و نجی سطح پر جشنِ میلادالنبی کی خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے جن میں حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کٹ مرنے کے جذبے کا اعادہ کیا جائیگا۔ آج وزیراعظم پاکستان عمران خان نے تو سکھوں سمیت غیرمسلم اقلیتوں کی سہولت کیلئے کرتارپور راہداری کا افتتاح کرکے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم پیش رفت کی ہے مگر اسکے جواب میں بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ صادر کرکے آفاقی دین اسلام اور مسلم امہ کیخلاف ہنود و یہود و نصاریٰ کی گھنائونی سازشوں کا پردہ مزید چاک کردیا ہے جو ہم سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء و فروغ کیلئے امت واحدہ کی حیثیت سے طاغوتی قوتوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بننے کا متقاضی ہے۔ بھارتی چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے الٰہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف بھارت کے سنی وقف بورڈ کی اپیل مسترد کرکے مسلم امہ کیخلاف جنونی ہندو کے متعصب کو مزید اجاگر کیا ہے۔ یہ فیصلہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے یوم ولادت باسعادت سے ایک روز قبل صادر کیا گیا ہے جس کا مقصد سراسر شمعٔ رسالت مآب کے پروانوں کے جذبات مجروح کرنا اور ان میں اشتعال پیدا کرکے مسلمانوں پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا ہے۔
ذاتِ باری تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانیت کیلئے ہدایت کا آخری سرچشمہ بنا کر مبعوث فرمایا۔ ۔ حضور نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ایک نئے دور کا آغاز اور تاریخ کی ایک نئی جہت کا تعین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور بعد کے زمانوں کا تقابل کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد انسانیت کلیتاً ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی، تہذیب، کلچر اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ، قیام اور استحکام کے وہ نظائر ملتے ہیں جن کا نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل وجود نہ تھا بلکہ اْن کا تصور بھی مفقود تھا۔ یہ سب ختمِ نبوت کا وہ ازلی اور ابدی فیضان تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے ذریعے عالم انسانیت میں جاری و ساری ہوا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے رہنمائی اور اخذ فیض کے جو مناہج بطور امت ہمیں اپنانے چاہئیں تھے وہ اپنائے نہ جا سکے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جو ایک زمانہ فشاں ہوا اور خلافت راشدہ میں اسلامی مملکت کی حدود توسیع پذیر ہوئیں‘ بعد میں نہ صرف یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا بلکہ یہ حدود بھی محدود ہونے لگیں۔ مسلمانوں کا دنیا میں طوطی انکے اتحاد و یگانگت کے باعث بولتا تھا۔ امہ انتشار کا شکار ہوئی تو زوال شروع ہو گیا۔ پھر کہیں غرناطہ، کہیں بغداد اور کہیں ڈھاکہ فال ہونے لگے اور کہیں کشمیری‘ فلسطینی اور روہنگیا مسلمانوں پر طاغوتی طاقتوں کی افتاد ٹوٹنے لگی۔ آج اہل اسلام شدید مصائب و مشکلات سے دو چار ہیں۔ کسی کو دوش کیا دیا جائے‘ امتِ مسلمہ میں ہی نہ صرف نفاق و انتشار ہے بلکہ باہمی ناچاقیوںکی وجہ سے مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ مسلم ممالک ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے ہیں۔ آپس میں خونریز جنگیں زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کر رہی ہیں۔ 57 اسلامی ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم پر موجود تو ہیں مگر نہ صرف متحد نہیں بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں اور فرقہ واریت کی لعنت نے مسلم برادرہڈ کے آفاقی جذبے کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کے اس انتشار اور دشمنی پر مبنی رویوں سے سامراج کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں آسانی ہو رہی ہے۔ وسائل اور افرادی قوت سے مسلم ممالک مالا مال ہیں۔ بہترین فوج کی بات کی جائے تو یہ اعزاز پاکستان کے پاس ہے۔ پاکستان ہی مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اسی طرح ترکی اور ایران کی افواج دنیا کی ماہر ترین افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ مسلم افواج کے پاس جذبہ شہادت دنیا کی تمام افواج پر فوقیت کا سبب ہے مگر یہ سب کچھ ہوتے بھی مسلمان پستی کا شکار ہیں۔ مسئلہ فلسطین و کشمیر حل ہونے میں نہیں آ رہے تھے کہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جانے لگے جبکہ اب مسلم خلیجی ریاستیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار ہیں جس سے امتِ واحدہ کا تصور پارہ پارہ ہورہا ہے۔اب ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ آر ایس ایس کی ترجمان بھارت کی مودی سرکار نے مسلم دشمنی کی تمام حدیں عبور کرلی ہیں جو پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی نیت سے مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر ہڑپ کرچکا ہے اور آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر بھی شب خون مارنے کی گھنائونی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار کے ایماء پر ہی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا مذہبی منافرت پھیلانے والا فیصلہ صادر کیا ہے۔
اسی تناظر میں ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ اس ملک خداداد کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہے کیونکہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھ کر اسے توڑنے کے درپے ہیں۔ہمیں ڈومور کا تقاضا کرنیوالے مودی کے یار ٹرمپ کی ہرزہ سرائیوں کا یقیناً اسی کے لب و لہجے میں جواب دینے کی ضرورت ہے اور وزیراعظم عمران خان اس معاملہ میں پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کررہے ہیںتاہم ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر بھی ملکی اور قومی مفادات کی روشنی میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کرتارپور راہداری کے ذریعے بھارت کے ساتھ صلح جوئی اور بین المذاہب ہم آہنگی کی جانب ہمارے قدم بڑھانے کے جواب میں ہمیں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا منافرت بھرا پیغام مل رہا ہے تو کیونکر اپنے مکار دشمن کیلئے ریشہ خطمی ہونے والی پالیسی اختیار کئے رکھیں۔ ہمیں اپنے دفاعی اور اقتصادی معاملات میں امریکہ پر انحصار ترک کرنے والی پالیسی بھی بہرصورت اپنانا ہوگی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطے کے حصول کی جدوجہد اس خطے کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کیلئے کی تھی اور دو قومی نظریے کے تحت تشکیل کئے گئے اس ملک خداداد کو محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان پر قران مجید کی شکل میں نازل کئے گئے احکام خداوندی کی روشنی میں ایک مثالی اسلامی‘ فلاحی جمہوری معاشرہ کے قالب میں ڈھالنا ہی مقصود تھا۔ آج بھارتی سپریم کورٹ نے متعصبانہ فیصلہ صادر کرکے دو قومی نظریہ کی حقانیت مزید اجاگر کردی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بجا طور پر باور کرایا ہے کہ ہمیں آج دو قومی نظریے کا ادراک کرنیوالے بانیٔ پاکستان قائداعظم کو سلام عقیدت پیش کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اسی تناظر میں پاکستان کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کے متمنی ہیں۔ بے شک اسلام کی تعلیمات کے مطابق اس ارض وطن میں ملک کے ہر باشندے کو بلاتفریق رنگ‘ نسل‘ زبان اور مذہب اعلیٰ مناصب تک ملازمتوں سمیت رہن سہن اور معاشرت کے تمام حقوق حاصل ہیں جبکہ شرف انسانیت شریعت کا لازمی تقاضا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا تھا کہ ہمارا دستور خدا وند کریم کی نازل کردہ الہامی کتاب قرآن مجید کی شکل میں پہلے سے موجود ہے جو مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار پایا جبکہ آئین پاکستان کی دفعہ 2 کے تحت دین اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے اور دفعہ 2۔الف میں درج قرارداد مقاصد کے ذریعے اس امر کا مستقل تعین کردیا گیا ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون اور کوئی آئینی شق وضع نہیں ہو سکتی۔ ختم نبوت پر ایمان شریعت کا بنیادی تقاضا ہے۔ یہاں غیرمسلم اقلیتوں کو آئین کے تحت تمام حقوق توحاصل ہیں مگر خود کو مسلمان ظاہر کرکے کسی ملعون کو خدا کا نبی (نعوذباللہ) تسلیم کرنیوالوں کی مسلم معاشرے میں بطور مسلمان کبھی قبولیت نہیں ہو سکتی۔ فتنہ قادیانیت کیخلاف اسی بنیاد پر 1954ء میں فدایانِ اسلام نے تحریک ختم نبوت شروع کی۔ بے مثال قربانیوں اور پاسداری و تحفظ ختم نبوت کے عہد کے ساتھ حضرت نبی آخرالزمان کے پروانوں کی یہ تحریک 1974ء تک شدومد کے ساتھ جاری رہی تاآنکہ طویل بحث مباحث‘ مشاورت اور قادیانیوں کے اس وقت کے سربراہ مرزا ناصر احمد کا عقیدہ ختم نبوت پر مؤقف حاصل کرنے کے بعد1973ء کے آئین میں قادیانیوں‘ احمدیوں اور لاہوری گروپ کو اقلیت قرار دے دیا گیا۔ اس طرح دینِ اسلام کے مقابل کھڑے کئے گئے اس شر کا ہمیشہ کیلئے سدباب کردیا گیا۔ آج اس فتنے کا دوبارہ سر اٹھانا ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے۔
ہمارا یہ بھی المیہ ہے کہ بعض عناصر کی جانب سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جاتی ہے جس سے الحادی قوتیں فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو منتشر کرنے کی سازشیں بروئے کار لاتی ہیں۔ ہمیں بہرصورت اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنا ہے جبکہ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آنچ نہ آنے دینا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ خدا ہمیں اپنے دینِ کامل پر کاربند رہنے اور اپنے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و تقدس پر کوئی ہلکی سی بھی آنچ نہ آنے دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے رکھے اور ہم طاغوتی قوتوں کے مقابل اپنی آزادی‘ خودمختاری اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹھوس بنیادوں پر حفاظت کرنے کے اہل ہو جائیں‘ آمین۔
الحادی قوتوں کی سازشیں ہم سے اتحاد امت مستحکم بنانے کی متقاضی ہیں
Nov 10, 2019