عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے 

گلگت بلتستان عبوری صوبہ علاقے کے لوگوں کی خواہشوں اور ضرورتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کے انتظامی معاملات ایک صوبے کے انداز میں پہلے ہی چل رہے ہیں وہاں کے لوگ ایسے انتظامی بندوبست کے خواہاں تھے جس کے باعث انکے مقامی مسائل سبک انداز میں چلتے رہیں۔ صوبے کا باضابطہ قیام تمام قانونی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد ہوگا۔ پاکستان کا فائدہ قانون کی بالادستی یقینی بنانے میں ہے۔ آئین ہی بالادست ہے۔ مہنگائی روزانہ کی بنیادپر بڑھ رہی ہے‘ عوام کو گھر مل سکے نہ نوکریاں‘ مریم نواز نے ٹائیگر فورس کے جواب میں ’’شیرجوان‘‘ فورس قائم کر دی ہے۔ جمہوریت کو نقصان سیاست دانوں نے ہی پہنچایا۔ اپوزیشن بھی حکومت کی مخالفت میں کسی طرح بھی لچک کا مظاہرہ کرنے سے انکاری ہے۔ غلط اور صحیح کی کسوٹی آئین کو بنانا ہوگا۔ طالع آزماء ہمیشہ سیاست دانوں کے مخاصمانہ رویے کے باعث ہی آگے آئے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی یہی سوچ ہے کہ ہمارا ہی سیاسی بیانیہ درست ہے جو اسکی مخالفت کرتا ہے وہ ملک کا وفادار نہیں۔ ایک دوسرے کو غدار‘ مودی کا یار‘ بھارتی ایجنٹ ہونے کے طعنے دیئے جارہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن آپس میں گالی گلوچ بند کریں‘ لوگوں کو ملک دشمن قراردینے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ مخالفت برائے مخالفت کی سیاست کو الوداع کہا جائے۔ قومی سطح پر فرینڈ ڈائیلاگ حقیقی مسائل اجاگر کرنے اور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ گندم اور گنا لابی غریب کسان کا استحصال کرکے کروڑوں کماتی ہے۔ سب نے چینی کی برآمد سے کمایا‘ سبسڈی لی اور پھر چینی بھی مہنگی کی۔ یوکرائن سے مہنگی گندم خرید کر پاکستان درآمد کی جارہی ہے جبکہ پاکستانی کسان کو گندم کی قیمت کا ریٹ بہت ہی کم مقرر کیا گیا ہے۔ سندھ نے 2000 روپے فی چالیس کلو گرام کی سپورٹ پرائس مقرر کی ہے۔ چینی کا ریٹ تین گنا ہو گیا۔ گندم کی مارکیٹ قیمت 2400 روپے فی من ہے۔ سپورٹ پرائس تو اسکے مطابق مقرر ہونی چاہیے۔ پاکستان میں ترسیلات زر 9 فیصد سے بڑھ کر 24 ارب ڈالر تک پہنچ جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب سے سب سے زیادہ رقم موصول ہوئیں۔ اسکے بعد امارات‘ امریکہ اور برطانیہ ہیں۔ درآمد شدہ گندم مقامی فضل کے معیار سے کم ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگی بھی پڑ رہی ہے۔ کسانوں نے ہدف سے کم گندم کاشت کی۔ امدادی قیمت 200 روپے اضافہ کسانوں کے ساتھ مذاق ہے۔ کبھی کہا گیا مہنگائی مصنوعی ہے‘ کبھی حکومت کیخلاف سازش قرار دیا گیا‘ بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کیلئے عالمی اداروں کی شرائط پر عمل کیا۔ قرضے اتارنے کیلئے قرضے لئے‘ سود کی شرح میں اضافہ کیا‘ بالواسطہ ٹیکسوں میں بھی اضافہ کیا۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر بھی نہ سنبھالی جاسکی۔ مافیاز کے آگے بے بسی رہی۔ مخصوص مفادات رکھنے والے قوتوں کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑے۔ سیاسی مقبولیت کو بچانے کا سوال ہے۔ عوام کا جینا محال ہے۔ آدھے ملک کو غدار قرار دیکر کیا فائدہ ملے گا؟ پاک سرزمین پر غداروں کی سرزمین کا پرچم کون لہرانے پر تلا ہوا ہے۔ ریڈلائن کوئی بھی عبور کرے چالان تو ضرور ہوگا۔ پاکستان کی گروتھ صرف ایکسپورٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ایکسپورٹ سیکٹر کو بجلی گیس رعایتی نرخوں اور فنانسنگ کی مالی لاگت کم کرنے کیلئے ایکسپورٹ ری فنانسنگ اور طویل المدت فنانسنگ کی سکیموں میں دگنا اضافہ کیا ہے اور ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ری فنڈ بھی جلد ادا کئے جارہے ہیں۔ ہم70 سال سے زیادہ تجربے اور خام مال کی دستیابی کے باوجود بنگلہ دیش سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔ بنگلہ دیش 2041ء تک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک کی حیثیت حاصل کرلے گا۔ بنگلہ دیش کی موجودہ ایکسپورٹ 40 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ 
گردشی قرضے میں 1139 ارب روپے کااضافہ ہو کر 2300 ارب تک پہنچ گیا۔ اوورسیز پاکستانیوں نے 45 ارب ڈالر فنڈز دیئے پھر بھی زرمبادلہ کے ذخائر 25 ارب کی حد کو نہ چھو سکے۔ گندم کا اوسطاً فی کس استعمال 115 کلو گرام سالانہ کے حساب سے 26 ملین ٹن بنتا ہے‘ اس سال پیداواری ہدف 27 ملین ٹن تھا جبکہ پیداوار25 ملین ٹن ہوئی۔ ہم ٹارگٹ سے 7.5 فیصد پیچھے تھے لیکن قیمت سو فیصد بڑھ گئی ہے۔ یہی تو اصل ایشو ہے۔ بالعموم گندم کی خریداری پر پاکستانی 850 ارب روپے خرچ کرتے تھے لیکن اس سال 1800 ارب خرچ کرنا پڑے۔ چینی کی سالانہ فی کس کھپت 25 کلو ہے جو کل 5.6 ملین ٹن سالانہ بنتی ہے۔ پچھلے آٹھ سال میں چینی کھپت سے زیادہ پیدا ہوئی لیکن قیمت دو سال میں 58 سے 110 روپے کلو ہوگئی۔ چینی کی خریداری پر صارفین سالانہ 326 ارب روپے خرچ کرتے تھے لیکن اس سال 618 ارب روپے خرچ کرنا پڑے۔ 292 ارب جیبوں سے کس نے نکلوائے اور کن کی جیبوں میں ڈالے گئے۔ دو سال پہلے پاکستانی سالانہ ہزار ارب روپے کی بجلی خریدتے تھے لیکن اس سال بجلی پر 2000 ارب خرچ کرنا پڑے۔ دو سال پہلے ہر پاکستانی فیملی گندم چینی اور بجلی پر 72 ہزار روپے سالانہ خرچ کئے لیکن اس مد میں خرچ بڑھ کر 150,000 روپے ہوگیا۔ ٹماٹر‘ انڈے‘ آلو‘ پیاز‘ گھی‘ ادرک‘ مٹن‘ بیف‘ دودھ‘ ادویات اور پٹرول کا تو ذکر ہی کیا۔ حکومت کے پسندیدہ موضوعات نوازشریف اور زرداری کی کرپشن سے پردہ اٹھانا ہے۔ اپوزیشن کاایشو عمران خان کو نیچا دکھانا اورگرانا ہے۔ 
پاور شو حکومت نہیں گرا سکتے۔ مصالحے دار تقریریں کچھ نہیں بگاڑتیں۔ شیخ رشید‘ شہباز شریف‘ فیاض چوہان کی تقریروں سے کس کا نام روشن ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ کا تعلق کسی پارٹی سے نہیں۔ یہ پورے پاکستان کی ہے ۔ فی کس آمدنی گرتی جارہی ہے۔ قرضہ جی ڈی پی کا 107 فیصد ہے۔ وزیراعظم کے اتحادی کم بدخواہ زیادہ ہیں۔ بدخواہوں میں بے روزگاری اور مہنگائی سرفہرست ہیں۔ چینی کا چار ماہ بعد سرکاری ریٹ 83.50 روپے کلو مقرر ہوا ہے۔ درآمدی چینی پرچون کے دکانداروں کو ملے گی۔ سہولت بازار میں چینی دو روپے سستی ساڑھے 81 روپے کلو ملے گی۔ آٹے‘ چینی کی طرح خدمات کے ریٹ بھی مقرر ہو جائیں تو عوام کا کتنا بھلا ہوگا۔ مثلاً ڈاکٹروں‘ پرائیویٹ ہسپتالوں‘ تعلیمی اداروں‘ اکیڈمیوں کی فیسیں‘ بیوٹی پارلر‘ ہوٹلنگ‘ نائی‘ دھوبی‘ درزی کے نرخ صنعتوں کیلئے بجلی کے نرخوں میں رعایت کا اعلان ہوا ہے۔ ریلیف پیکیج کے تحت چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو جون 2021ء تک گزشتہ نومبر میں استعمال شدہ بجلی سے زیادہ صرف کرنے پر اس اضافی بجلی پر 50 فیصد رعایت ملے گی۔ تمام صنعتوں کو اگلے تین سال تک 25 فیصد سستی بجلی ملے گی۔ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت 25 فیصد تک مہنگی بجلی سے تیار ہونیوالی پاکستانی اشیاء کیلئے بنگلہ دیش‘ بھارت اور ویت نام وغیرہ کی مصنوعات کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز پر گھی‘ کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ قیمتوں میں 3 سے 37 روپے تک اضافہ ہوا ہے۔ سٹورز پر گھی کی فی کلو قیمت 253 روپے جبکہ آئل کی قیمت 255 روپے لٹر ہوگئی ہے۔ 

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن