شیطانیت کا خاتمہ کشمیر اور فلسطین کے منصفانہ حل سے ہی جڑا ہواہے

 نئے امریکی صدر جوبائیڈن کا شیطانیت کے سنگین دور کے خاتمہ کا عندیہ اور امریکہ کو قابل اعتبار بنانے کا عزم
 امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ کو ایک با پھر دنیا میں قابل اعتبار بنائیں گے۔امریکی صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد جو بائیڈن نے اپنے پہلے عوامی خطاب میں منقسم قوم کو متحد کرنے کے عہد کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ 'امریکہ میں شیطانیت کا یہ سنگین دور ختم ہونے دیا جائے۔ بائیڈن نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہم ہر چیز پرایک رائے رکھیں اور متفق ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا چار سالہ دور حکومت بحرانوں کا عرصہ ہے۔ کشیدگی اور وبا نے امریکہ کو بہت نقصان پہنچایا۔ جس طرح ہم ایک خاندان کو متحد رکھتے ہیں اسی طرح پورے ملک کو متحد رکھنا ہوگا۔ یہ سب کچھ ہمیں شفقت‘ نرمی، شجاعت اور امید کے ذریعے کرنا ہوگا۔ دریں اثناء اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ جوبائیڈن ہماری مشکلات اور پاکستان کو جانتے ہیں۔ جوبائیڈن کی جنوبی ایشیا پالیسی ٹرمپ سے مختلف ہو گی ۔ نائب صدر کملا ہیرس نے بھی کشمیر میں بھارتی اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔امریکہ چین کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ ہماری خواہش ہے جوبائیڈن انتظامیہ کشمیر کے معاملے پر بھی توجہ دے اور اگر ایسا ہوا تو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ کشمیری عوام کے لیے بھی بہتر ہو گا۔صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو مبارکباد دی اور کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ طویل المدتی دوستی کو جاری رکھنے اور باوقار تعلقات کا خواہاں ہے۔
جوبائیڈن امریکہ کے 46ویں صدر ہیں۔ ٹرمپ کی لاابالی شخص کی شہرت رہی۔ انکی شخصیت کئی حوالوں سے متنازع رہی‘ جاتے جاتے وہ صدارتی انتخابات کو بھی متنازعہ بنا گئے۔ وہ انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے بدستور انکاری ہیں۔ وہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے جانا چاہتے ہیں۔ جوبائیڈن نے ابھی کوئی پالیسی بیان نہیں دیا جس کی پوری دنیا منتظر ہے۔ پاکستان امریکہ تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے۔ ان تعلقات کا عروج امریکہ روس سرد جنگ میں اس وقت دیکھا گیا جب امریکہ نے روس کو افغانستان سے نکالنے کیلئے پاکستان سے درخواست کی۔ پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا جس سے روس بکھر کے رہ گیا۔ قبل ازیں 71ء کی جنگ میں جب پاکستان دولخت ہوا‘ اس موقع پر روس بھارت کے شانہ بشانہ تھا جبکہ پاکستان امریکی بحری بیڑے کا منتظر رہا جس کی روانگی کا اعلان اس وقت کے صدر امریکہ نے کیا تھا۔
 پاکستان امریکہ تعلقات میں گرم جوشی امریکہ کے افغانستان میں نائن الیون کے بعد حملے کے موقع پر دیکھنے میں آئی۔ جب پاکستان نے اپنی استعداد سے بڑھ کر امریکہ کا ساتھ دیا۔ اپنی سرزمین‘ شاہراہیں‘ ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کردیئے۔ امریکہ نے نیٹو کو ساتھ ملا کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ امریکہ نے یہ جنگ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی۔ اس جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کی پاداش میں پاکستان بری طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا جو بالآخر اسکی اپنی بقا کی جنگ بن گئی۔ افغان جنگ سے پاکستان کا کردار منفی کرکے دیکھیں تو امریکہ جہاں کھڑا نظر آئیگا وہاں نظر آئیگا۔ مگر پاکستان ضرور دہشت گردی سے محفوظ ہوتا۔ پاکستان بھارت کیلئے ناقابل برداشت رہا ہے۔ اس نے بھی پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کیلئے اپنا مذموم کردار ادا کیا۔ امریکہ نے پاکستان کے افغان وار میں کردار کو شروع میں سراہا اور پاکستان کے مطالبے کے بغیر پاکستان کی سڑکوں‘ ہوائی اڈوں اور دیگر تنصیبات استعمال کرنے کا معاوضہ طے کرکے ادائیگی شروع کر دی۔ پاکستان کو اس وار میں 120‘ ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے جو نیٹو کے کسی بھی اتحادی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ابتدائی چند سال امریکہ اور پاکستان کے مابین اعتماد کی مثالی فضا قائم رہی۔ افغانستان پر قابض ہونے کے بعد امریکہ نے وہاں بھارت کو بھی کردار دے دیا گیاجس کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کیا اور امریکہ کو بدگمان کرنے کیلئے پاکستان کیخلاف جھوٹا پراپیگنڈا شروع کر دیا۔ اسکی خود امریکہ کے قریب اور پاکستان کو دور کرنے کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور امریکہ پاکستان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ پاکستان کی وہ ادائیگیاں روک لی گئیں جو امریکہ کی جانب سے کرائے کی مد میں کی جارہی تھیں جسے سپورٹ فنڈ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ قطعی طور پر امداد نہیں تھی۔ ٹرمپ بھارت کی باتوں میں ایسے آئے کہ پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دینے لگے۔ ادھر چین کے ساتھ امریکہ کی کشیدگی بڑھی تو امریکہ نے بھارت کو چین کیخلاف کھڑا کرکے اس پر جدید دفاعی ٹیکنالوجی اور اسلحہ کی بھرمار کردی۔ ٹرمپ جنہیں اپنی جیت کا زیادہ ہی گمان تھا‘ انتخابات سے چند روز قبل بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدوں کیلئے اپنے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو بھارت بھیجا تھا۔ 
ٹرمپ اپنی صدارت کے آخری مہینوں بھارت کے ساتھ کھل کر کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ کئی مسلم ممالک کے لوگوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا چکے تھے۔ انکی عمومی پالیسیاں مسلمانوں کیلئے تکلیف دہ تھیں۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر ان کو تشویش ضرور تھی مگر انہوں نے کشمیر میں بھارتی فورسز کی بربریت پر دوٹوک موقف اختیار نہیں کیا اور پھر فلسطین کے حوالے سے پالیسی اور ظالمانہ اقدامات میں ٹرمپ کی طرف سے اس کا ساتھ دینا دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بنا۔ ایران کے ساتھ 5 پلس ون ممالک کے ساتھ ہونیوالا اسرائیل کا معاہدہ ختم کرکے ایران کے ساتھ تنازعہ کھڑا کر دیا۔ 
پاکستان کے ساتھ ٹرمپ دور میں امریکہ کا رویہ جارحانہ ہوگیا تھا۔ چین کے ساتھ بھی کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ ایسے میں پاکستان اور چین مزید قریب آگئے۔ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو گئے۔ آج روس اور پاکستان اتنے قریب آچکے ہیں کہ انکے مابین فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ نئے امریکی صدر جہاندیدہ ہیں بلاشبہ انہیں امریکی مفادات زیادہ عزیز ہونگے۔ وہ دنیا کو پرامن بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کا عہد کر رہے ہیں۔ اس کیلئے بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے انہیں اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ دنیا دو بڑے تنازعات کی وجہ سے بدامنی کی آگ میں جل رہی ہے۔ ایک مسئلہ فلسطین اور دوسرا کشمیر ایشو۔ ان پر نئے امریکی صدر مسلمانوں کے ساتھ بے شک کھڑے نہ ہوں لیکن ان تنازعات کو غیر جانبداری سے حل کرادیں جس کے ساتھ شیطانیت کے خاتمہ کا حل جڑا ہوا ہے۔ دنیا امید رکھتی ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ دنیا میں برپا کرائے ہوئے فسادات اور انتشار میں اضافے کے بجائے انہیں سمیٹنے کی طرف توجہ دیگی اور خود جوبائیڈن کے بقول شیطانیت کے سنگین دور کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن