جوبائیڈن کی دانش کا امتحان

Nov 10, 2020

محمد یسین وٹو

جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کا بالآخر امریکیوں کے صبر آزما انتظار کے بعد اعلان ہو چکا مگر ٹرمپ نتائج ماننے سے بدستورانکاری ہیں۔ جو بائیڈن نے ٹرمپ کے 214 الیکٹورل ووٹوں کے مقابلے میں 290 ووٹوں کی واضح برتری حاصل کی۔ ٹرمپ جانے کس خوش گمانی‘ خوش فہمی یا غلط فہمی میںجیت کے دعویدار تھے اور ہیں۔ وہ نتائج کیخلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ دنیا کو جوبائیڈن کی نظر آنے والی برتری کیلئے ہو سکتا ہے کہ جادوگری یا پُرکاری دکھائی گئی ہو جس کے ٹرمپ کے پاس ثبوت ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ دھاندلی ثابت کر دیتے ہیں جس کا سردست کوئی خاص امکان نہیں ہے تو امریکی جمہوریت کی ساکھ بری طرح متاثر ہو گی مگر امریکہ کو نیک نامی اور بدنامی سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اس کی طرف سے انسانیت کو کچلنے‘ آدمیت کو مسلنے میں کبھی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ جاپان سے شروع کریں جرمنی‘ ویت نام‘ افغانستان‘ عراق‘ شام‘ لیبیا اور یمن میں بے گناہوں کے خون کے چھینٹوں سے اس کا دامن داغدار ہے۔ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی اقتدار میں ہو یا ری پبلکن‘ اس کی ترجیح اپنے ملک کا مفاد ہوتا ہے۔ یہ صرف امریکہ تک ہی موقوف نہیں‘ کسی بھی ملک میں اقتدار میں آنے والی پارٹی ایسا ہی کرتی ہے حتیٰ کہ اندر سے دشمن کے ساتھ ملے ہوئے حکمران بھی ملکی تحفظ کیخلاف کچھ کرتے ہیں تو کسی کو شبہ ہونے دیتے ہیں نہ اپنے کام اور کمالات کا کوئی سراغ نہیں چھوڑتے۔ امریکہ میں زمام کار اب ری پبلکنز کے ہاتھ سے ڈیموکریٹس کے پاس چلی گئی ہے۔ اس سے کم یا زیادہ عالمی سطح پر اثرات ضرور مرتب ہونگے۔ ٹرمپ اپنے پیشرو ڈیموکریٹ صدر اوباما کی طرح پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کرتے رہے۔ دھمکیاں بھی دیتے رہے جنگ مسلط کرنے کی تڑی بھی لگائی۔ پاکستان پر ڈرونز حملوں کا سلسلہ تو ان سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا جو جاری رہا۔ افغان مسئلے کے حل کیلئے بش سے لے کر اوباما اور ٹرمپ نے مذاکرت کا آپشن مسترد کر دیا تھا گولی سے افغانستان میں امن کے قیام کیلئے بضد رہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دوٹوک موقف پر ایک تو ڈرون حملے رُک گئے دوسرے افغانستان میں امن کیلئے ٹرمپ مذاکرات پر آمادہ ہوئے اور امن عمل تیزی سے آگے بڑھا اور فریقین کے مابین امن معاہدہ ہو گیا۔ افغانستان میں امن عمل اب ریورس نہیں ہو سکتا۔ ٹرمپ پاکستان کی آواز اور بات ضرور سنتے رہے مگر پاکستان کے سب سے بڑے دشمن کی مانتے رہے۔ امریکہ کے خطے میں مفادات کو چین سے خطرات لاحق ہوئے تو بھارت کو تھپکی دیکر چین کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ چین دشمنی اور بھارت کو خوش کرنے کیلئے ٹرمپ حکومت نے سی پیک کی مخالفت کی۔ بھارت کسی غلط فہمی میں چین سے الجھ پڑا ، شایدامریکی حمایت کا زعم تھا، یہ زعم حماقت تھی۔ بھارت کو چین سے جوتے کھانے پڑے۔ افغانستان میں امریکہ سے سب سے زیادہ تعاون پاکستان نے کیا مگر اسکی نوازشات بھارت پر ہوتی رہیں۔ ٹرمپ نے جاتے جاتے بھی بھارت کے ساتھ ایسے دفاعی معاہدے کئے جو خطے کے امن اور پاکستان کیلئے خطرناک ہیں۔ ٹرمپ ایک اور ٹرم کیلئے جیت جاتے تو بھارت کو مزید طاقتور بنانے سے گریز نہ کرتے۔ بھارت اپنی تمام طاقت اور شرارت پاکستان کیخلاف استعمال کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔ٹرمپ کی ان پالیسیوں نے پاکستان اور چین کے مابین تعلقات کو مزید مضبوط کردیا،چین پاکستان کو Iron Brother یعنی آہنی بھائی کا درجہ دیتا ہے۔یہ اصطلاح چین کی طرف سے وضح کی گئی ہے۔ٹرمپ کی بے اتنائی کے باعث ہی پاکستان نے روس کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری لانے کی کوشش کی۔روس کو بھی اس کی ضرورت تھی۔جوبائیڈن پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے بھی ممکنہ حد تک کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ بلاشبہ کیری لوگر بل کے تخلیق کار ہیں جو انہوں نے نائب صدر منتخب ہونے سے قبل تیار کیا تھا مگر اب وہ صدر امریکہ ہیں اور اس طرح آج پابندیوں اور پاکستان کے فنڈز روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کی امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش رہی ہے۔ امریکہ کو بھی پاکستان کی ضرورت ہے اور شدید ضرورت افغانستان میں اس کے آخری فوجی کی موجودگی تک رہے گی۔ امیدکی جانی چاہئے کہ مریکہ آخری فوجی انخلا کر کے افغانستان سے جائیگا افغانیوں کے عتاب کی نذر نہیں ہو گا۔ 

مزیدخبریں